ایک کلی جو خیالوں کی چھائی بہانے سے آکے
مجھ کو جگاتی ہے بکھرے ہوئے ہیں
فلک سے تارے زمین پہ سج کے
نور بجا کے اپنی اس دنیا میں
رنگوں کی دنیا میں لیکن کاروان غم کے چلتے ہیں
کچھ جو کہتی ہے ایک یہ زہر پیئے
تب نہ زمین میں تو پھر تو
اے دل سنبھل جا کیوں ہے تو روتا
جب یہ سفر ایک عارضی رہنا
اے دل سنبھل جا کیوں ہے تو روتا
جب یہ سفر ایک عارضی رہنا
کیوں یہ ظلم دکھتا ہے
دکھ ہی کیوں بس بکتا ہے
روتی آنکھیں ماںوں کی کب تک اور سینہ ہے
ہر کوئی فیرون ہے
بس نیا ہاموسا ہے
لپ پہ تو محمد ہے
دل میں نہ وہ دکھتا ہے
جاؤں کہاں پہ میں
رب کی رضا میں میں
سجدے میں جھک جاؤں
اس سے
کھانا مانگو ایک یہ کلی جو
خیالوں کی چھائی ہے
دل ہی دکھاتی ہے پھر تو
اے دل سنبھل جا کیوں ہے تو روتا
جب یہ سفر ایک عارضی رہنا
اے دل سنبھل جا کیوں ہے تو روتا
جب یہ سفر ایک عارضی رہنا
رون کے جہاں کی میں تلاش پہ نکل پڑا
جو پھسلایاں میں میں
جہاں پہ تو بے خبر رہ گیا
جو راستہ چنا ہے وہ
انتہا سزا نہ ہو
تو ہی میری جستجو ہے پھر تو
اے دل سنبھل جا
اے دل سنبھل جا کیوں میں تو روتا
جب یہ سفر ایک عارضی رہنا
اے دل سنبھل جا کیوں ہے تو روتا
جب یہ سفر ایک عارضی رہنا
عارضی رہنا
عارضی رہنا
جب یہ سفر ایک عارضی رہنا
جب یہ سفر ایک عارضی رہنا