
Song
V.A
Aftab-e-risalat, Pt. 1

0
Play
Lyrics
Uploaded by86_15635588878_1671185229650
نعمده و نصلی و نسلم علی رسولِهِ الكریم و علیہ و اصحابِهِ اجمعین
سید المرسلین خاتم النبیین رحمت العالمین کا ذکر پاک
اور آپ کے مقدس گھرانے کے مقدس حالات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب متحر تمام دنیا سے زیادہ شریف اور پاک ہے
اور یہ وہ بات ہے کہ تمام کفار مکہ اور آپ کے دشمن بھی اس سے انکار نہ کر سکے
ابو سفیان نے بحالتِ کفر شاہِ روم کے سامنے اس کا اقرار کیا
حالکہ اس وقت چاہتے تھے کہ اگر کوئی گنجائش ملے تو آپ پر عیب لگائیں
آپ کا نسب شریف والدِ ماجد کی طرف سے یہ ہے
محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن حاشم بن عبد منعف بن قسی بن قلاب بن مرہ بن قعب بن لوئی بن غالب
بن فہر بن مالک بن نظر بن کنانا بن خزیمہ بن مدرکہ بن علیاس بن مزر بن نظار بن معد بن عجنان
یہاں تک سلسلہ نسب بیجمائی امت ثابت ہے
اور والدہِ ماجدہ کی طرف سے آپ کا نسب یہ ہے
محمد بن عامنہ بن طبح بن عبد منعف بن زہرہ بن قلاب
معلوم ہوا کہ قلاب بن مرہ میں آپ کے والدین کا نسب جمع ہے
ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ جبریل نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ میں نے مشرق سے مغرب تک تمام زمین کو چھانڈ ڈالا
مگر بنی حاشم سے افضل اور بہتر کسی کو نہ پایا
حکیم ترمزی فرماتے ہیں کہ جبریل امین نے پاک نفوس کی تلاش میں زمین کا چکر لگایا
مگر زمانہ چونکہ جاہلیت کا تھا اس لیے جبریل نے ظاہری افعال و عامال پر نظر نہ کی
بلکہ فطرت اور استعداد پر نظر کی
اس اعتبار سے عموماً عرب اور خاص بنی حاشم سے کسی کو افضل نہ پایا
اس زمانے میں عرب کو تمام اقوام عالم پر چند وجوہ سے ایسا تفوق اور انتیاز حاصل تھا
کہ کوئی قوم ان کی ہمپلہ اور ہمسر نہ تھی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی حاشم میں سے تھے
جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں دنیا کے مشرق و مغرب میں پھرا
مگر بنی حاشم سے افضل کوئی خاندان نہیں دیکھا
بنی حاشم کے سردار حضرت عبد المطلب ہے
حضرت عبد المطلب
عبد المطلب کا نام شیبت الحمد تھا
نہایت حسین و جمیل تھے
ایک شاعر کہتا ہے
علی شیبت الحمد اللذی کان وجہہو
یغیظ لام اللیل کالقمر البدری
چودنی رات کے چاند کی طرح شیبت الحمد کا چہرہ رات کی تاریکی کو روشن کرتا تھا
عبد المطلب کے لفظی معنی
مطلب کا غلام ہے
حاشم کے انتقال کے بعد
عبد المطلب کی والدہ ایک عرصے تک مدینہ منورہ میں
اپنے میکے بنی خزرج ہی میں مقیم رہی
جب عبد المطلب ذرا بڑے ہو گئے
تو ان کے چچا مطلب ان کے لینے کے لیے مکہ سے مدینہ آئے
جب ان کو لے کر واپس ہوئے تو مکہ میں داخل ہوتے وقت
عبد المطلب اپنے چچا مطلب کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے
شہبہ کے کپڑے میلے کچیلے اور گرد آلود تھے
اور چہرے سے یتیمی چپکتی تھی
لوگوں نے مطلب سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے
مطلب نے حیاء کی وجہ سے یہ کہہ دیا کہ یہ میرا غلام ہے
کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ بھتیجہ ایسے میلے کچیلے کپڑوں میں کیوں ہے
اس لیے عبد المطلب کے نام سے مشہور ہو گئے
مطلب نے مکہ پہنچ کر بھتیجے کو عمدہ لباس پہنایا
اور اس وقت ظاہر کیا کہ یہ میرا بھتیجہ ہے
ابن سعید طبقات میں روایت کرتے ہیں
کہ عبد المطلب تمام قریش میں سب سے زیادہ حسین و جمیل
اور سب سے زیادہ قوی اور جسیم
اور سب سے زیادہ بردبار اور حلیم
اور سب سے زیادہ سخی اور کریم
اور سب سے زیادہ شر اور فتنے سے دور بھاگنے والے تھے
اور قریش کے مسلم سردار تھے
حضرت عبد المطلب کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے
کہ آپ نے چاہے زمزم کو دوبارہ نکالا
یہ ایک عرصے سے بند پڑا ہوا تھا
اور کسی کو علم بھی نہ تھا
کہ یہاں پر کوئی کنہ بند ہے
لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل کے ذریعے
یا کسی فرشتے کے ذریعے
آپ کو خواب میں متعلق کیا
اور آپ سے کہا گیا کہ اس جگہ کو کھو دیں
چنانچہ آپ کو نشان بھی بتایا گیا
اور آپ نے وہ جگہ کھو دی
تو آپ زمزم دوبارہ نکلا
چاہے زمزم کے کھوتے وقت
عبد المطلب کا سوائے اکلوتے بیٹے حارس کے
اور کوئی یار و مددگار نہ تھا
اس لیے انہوں نے منت مانی
کہ اگر حق تعالیٰ مجھ کو دس بیٹے عطا فرمائے
جو جوان ہو کر میرے دست و بازو بنے
تو ایک فرزند کو اللہ کے نام پر زباہ کروں گا
جب اللہ نے ان کی یہ تمنا اور عدو پوری کی
اور دس بیٹے پورے ہو گئے
تو ایک رات خانہ کعبے کے سامنے سو رہے تھے
تو خواب میں دیکھا
کہ ایک شخص کہہ رہا ہے
اے عبد المطلب اس نظر کو پورا کرو
جو آپ نے اللہ کے گھر کے مالک کے لیے مانی تھی
جو جمع کیا
اور اپنی نظر اور خواب کی خبر دی
سب نے ایک زبان ہو کر کہا
آپ اپنی نظر پوری کریں
اور جو چاہے کریں
عبد المطلب نے سب بیٹوں کے نام پر قرآن ڈالا
حسن اتفاق سے قرآن حضرت عبداللہ کے نام پر نکلا
جو جناب نبی اکرم سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ہیں
اور جن کو عبد المطلب سب سے زیادہ محبوب رکھتے تھے
عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر
مذبے یعنی قربانگاہ کی طرف چلے
اور چھوری ساتھ تھی
حضرت عبداللہ کی بہنیں یہ دیکھ کر رونے لگیں
اور ان میں سے ایک بہن نے یہ کہا
کہ اے باپ آپ دس اونٹوں اور عبداللہ ہمیں قرآن ڈال کر دیکھئے
اگر قرآن اونٹوں کے نام پر نکل آئے
تو دس اونٹوں کی قربانی کر دیجئے
اور ہمارے بھائی عبداللہ کو چھوڑ دیجئے
اور اس وقت دس اونٹ ایک آدمی کی دیت اور خون بہا ہوتے تھے
قرآن ڈالا گیا
تو اتفاق سے حضرت عبداللہ ہی کے نام پر نکلا
عبدالمطلب دس دس اونٹ زیادہ کر کے قرآن ڈالتے جاتے تھے
مگر قرآن عبداللہ ہی کے نام پر نکلتا تھا
یہاں تک کہ سو اونٹ پورے کر کے قرآن ڈالا گیا
تو قرآن اونٹوں کے نام پر نکلا
اس وقت عبدالمطلب اور تمام حاضرین نے اللہ و ابر کہا
بہنیں اپنے بھائی عبداللہ کو اٹھا لائیں
اور عبدالمطلب نے وہ سو اونٹ صفا اور مربع کے ماہ بین نہر کیے
یعنی زباہ کر دیئے
ابن عباس فرماتے ہیں
کہ اول دیت کی مقدار دس اونٹ تھی
سب سے پہلے عبدالمطلب نے قریش اور تمام عرب میں یہ سنت جاری کی
کہ ایک آدمی کی دیت سو اونٹ ہیں
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی کو برقرار رکھا
اسی واقعے کے بعد سے حضرت عبداللہ زبیح کے نام سے موسم ہوئے
اور اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
ابن الزبیحین کہتے ہیں
یعنی دو زبیحی کے فرزن
عبدالمطلب جب عبداللہ کی فدیعے سے فارغ ہوئے
تو شادی کی فکر دامنگیر ہوئی
قبیلہ بنی زہرہ جو شرافت نسبی میں ممتاز تھا
اس میں وہاب ابن عبدالمناف کی صاحبزادی سے جن کا نام آمنہ تھا
اور اپنے چچا وہیب بن عبدالمناف کی زیر تربیت تھی
ان سے حضرت عبداللہ کے نکاح کا پیام دیا
اور خود زہیب حضرت آمنہ کے چچا
چچا کی صاحبزادی جن کا نام حالہ تھا
ان سے عبدالمطلب نے خود اپنے نکاح کا پیام دیا
ایک ہی مجلس میں دونوں نکاح پڑھائے گئے
حضرت حمزہ انہی کی بطن سے
ابن عباس فرماتے ہیں
کہ جب عبدالمطلب اپنے فرزند عبداللہ کو نکاح کے لیے لے کر چلے
تو راستے میں ایک یہودی عورت پر گزر ہوا
جس کا نام فاطمہ بنت مر تھا
اور توریت و انجیل وغیرے سے بخوبی واقف تھی
حضرت عبداللہ کے چہرے میں نور نبوت دیکھ کر اپنی طرف بلایا
اور یہ کہا کہ میں تجھ کو سو اونٹ نظر کروں گی
حضرت عبداللہ نے جواب میں کہا
حرام کے ارتکاب سے موت آسان ہے
اور ایسا فعل بالکل حلال نہیں
جس کو معرضِ ظہور میں لا سکوں
جس ناجائز عمر کی تو طلبگار ہے وہ مجھ سے کیسے ممکن ہے
کریم النفس آدمی تو اپنی عابرو
اور اپنے دین کی پوری حمایت اور حفاظت کرتا ہے
حضرت عبداللہ جب حضرت آمنہ سے نکاح کر کے واپس ہوئے
تو واپسی میں پھر اسی عورت پر گزر ہوا
تو اس نے دریافت کیا کہ
اے عبداللہ تم یہاں سے جانے کے بعد کہاں رہے
حضرت عبداللہ نے کہا کہ میں نے
اس عرصے میں وحاب ابن عبد المنافقی صاحب زادی آمنہ سے نکاح کیا
اور نکاح کے بعد تین روز وہاں قیام کیا
اس یہودی عورت نے سن کر کہا
کہ واللہ میں کوئی بدکار عورت نہیں
تمہارے چہرے میں نور نبوت کو دیکھ کر یہ چاہا تھا
کہ یہ نور میری طرف منتقل ہو جائے
لیکن اللہ نے جہاں چاہا وہاں اس نور کو ودیت رکھا
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باس عادت سے پہلے
اصحاب فیل کا ایک واقعہ گزرا ہے
اصحاب فیل نے بیت اللہ پر حملہ کیا
اور خداوند عالم نے ان کو ابابیب
یعنی چند حقیر جانوروں کی ٹکڑیوں کے ذریعے شکست دی
جس کا اجمالی واقعہ قرآن عزید میں بھی موجود ہے
اور در حقیقت واقعہ فیل بھی
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باس عادت کی برکات کا مقدمہ تھا
بعض مورخین نے لکھا ہے
کہ واقعہ فیل بیس اپریل سن پانچ سو سترہ عیسوی میں ہوا ہے
جس سے معلوم ہوا کہ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو اکھتر سال بعد میں ہوئی ہے
الغرض
جس سال اصحاب فیل کا حملہ ہوا
اس کے ماہ ربیل اول کی بارویں تاریخ
روز دو شمبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالہ دن ہے
کہ آج پیدائش عالم کا مقصد لیل و نہار کے انقلاب کی اصلی غرض
آدم اور اولاد آدم کا فخر
کشتی نوح کی حفاظت کا راز
ابراہیم کی دعا اور موسیٰ و عیسیٰ کی پیشین گوئیوں کا مصداق
یعنی ہمارے آقا نامدار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
رونق افروض عالم ہوتے ہیں
ادھر دنیا کے بدکدے میں آفتاب نبوت کا ظہور ہوتا ہے
ادھر ملک فارس کے کسرہ کے محل میں زلزلہ آتا ہے
جس سے اس کے چودہ کنگرے گر جاتے ہیں
بحیرہ سادہ کے ملک فارس کا ایک دریہ دفعتاً خوشک ہو جاتا ہے
فارس کے آتش کدے کی وہ آگ
جو ایک ہزار سال سے کبھی نہ بجیتی خود بخود سرد ہو جاتی ہے
اور یہ در حقیقت آتش پرستی اور ہر گمراہی کے خاتمہ کا اعلان
فارس و روم کی ستنتوں کے ذوال کی طرف اشارہ ہے
صحیح احادیث میں ہے
کہ ولادت کے وقت آپ کی والدہ ماجدہ کی بطن سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا
جس سے مشق و مغرب روشن ہو گئے
اور بعض روایات میں ہے
کہ آپ زمین پر جلوہ افروض ہوئے
تو دونوں ہاتھوں پر سہارے دیئے ہوئے تھے
پھر آپ نے خات کی مٹھی بھری اور آسمان کی طرف دیکھا
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک پیدا نہیں ہوئے تھے
کہ آپ کے والد ماجدہ
عبداللہ کو ان کے والد عبدالمطلب نے حکم کیا
کہ مدینہ تیبہ سے خجوریں لائیں
عبداللہ آپ کو بصورت حمل چھوڑ کر مدینہ چلے گئے
اتفاقاً وہیں ان کی وفات ہو گئی
اور والد کا سایہ پیدائش سے پہلے ہی سر سے اٹھ گیا
سب سے پہلے آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ نے
اور چند روز کے بعد ابو لہب کی کنیز سویبہ نے دودھ پلایا
اس کے بعد یہ دورت خدادات حلیمہ سادیہ کو نصیب ہوئی
حلیمہ سادیہ کے بھی کچھ حالات سنتے چلیے
شرفاء عرب کی عام عادت تھی
کہ بچوں کو دودھ پلانے کے لیے گرد و جوار کے دیہات میں بھیج دیتے تھے
جس سے بچوں کی جسمانی صحت بھی اچھی ہو جاتی تھی
اور وہ خاص عربی بھی سید جاتے تھے
اور اسی لیے گاؤں کی عورتیں اکثر شہروں میں شیر خوار بچے لینے کے لیے جایا کرتی تھی
حلیمہ سادیہ کہتی ہے
کہ ہم مکہ پہنچے
تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو جو عورت دیکھتی تھی
اور یہ سنتی کہ آپ یتیم ہیں تو کوئی قبول نہ کرتی
کیونکہ زیادہ انعام و اکرام کی توقع نہ تھی
ادھر حلیمہ کی قسمت کا ستارہ چمک رہا تھا
ان کے دودھ کی کمی ان کے لیے رحمت بن گئی
کیونکہ دودھ کم دیکھ کر کسی نے ان کو اپنا بچہ دینا گوارا نہ کیا
حلیمہ فرماتی ہے
کہ میں نے اپنے شوہر سے کہا
کہ یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا
کہ خالی ہاتھ واپس جائیں
خالی سے بہتر ہے کہ اس یتیم کو لے چلیں
شوہر نے منظور کیا
اور یہ اس در یتیم کو لے کر آئیں
جس سے آمنہ اور حلیمہ کی گھر نہیں
بلکہ مشرق و مغرب میں اجالہ ہونے والا تھا
خدا کا فضل تھا
کہ حلیمہ کی قسمت جاگی
اور سرور کائنات صلى الله عليه وسلم ان کی گود میں آگئے
یہ دودھ پلانے بیٹھیں
تو برکات کا ظہور شروع ہو گیا
اس قدر دودھ اترا کہ آپ نے بھی
اور آپ کے رضائی بھائی نے بھی خوب سیر ہو کر پیا
اور آرام سے سو گئے
ادھر اونٹنی کو دیکھا
تو اس کے تھن دودھ سے لبریز تھے
میرے شوہر نے اس کا دودھ نکالا
اور ہم سب نے سیر ہو کر پیا
اور رات بھر آرام سے گزاری
مدتوں بعد پہلی رات تھی
کہ ہم اتمنان کے ساتھ نیند بھر کر کے سوئے
اب تو میرا شوہر بھی کہنے لگا
کہ حلیمہ تم تو بڑا ہی مبارک بچہ لائی ہو
میں نے کہا کہ مجھے بھی یہی توقع ہے
کہ یہ نہایت مبارک لڑکا ہے
اس کے بعد
اسے روانہ ہوئے
میں آپ کو گود میں لے کر
اسی اونٹنی پر سوار ہوئی
جو چل نہ سکتی تھی
مگر اس مرتبہ خدا کی قدرت کا یہ تماشاں دیکھتی ہوں
کہ اب وہ اتنا تیز چل رہی ہے
کہ کسی کی سواری اس کی گرد کو نہیں پہنچتی
میری ہمراہی عورت نے تاجب سے کہنے لگی
کہ یہ وہی ہے جس پر تم آئیں تھی
الغرض راستہ قطع ہوا
ہم گھر پہنچے
وہاں سخت قہد پڑا ہوا تھا
تمام دودھ کے جانور دودھ سے خالی تھے
لیکن میرا گھر میں داخل ہونا تھا
اور میری بکریوں کا دودھ سے بھرنا
اب روز میری بکریوں دودھ سے بھری آتی ہیں
اور کسی کو ایک قطرہ بھی نہیں ملتا
میری قوم کے لوگوں نے اپنے چرواہوں سے کہا
کہ تم بھی اپنے جانور اسی جگہ چراؤ جہاں
حلیمہ کی بکریوں چراتی ہیں
مگر وہاں تو چراغاہ اور جنگل کی خصوصیت نہ تھی
بلکہ کسی اور ہی لال کے خاطر مندور تھی
اس کو وہ لوگ کہاں سے لاتے
چنانچہ ایک ہی جگہ چرنے کے بعد بھی
ان کے جانور دودھ سے خالی اور میری بکریوں بھری ہوئی آتی تھی
اسی طرح ہم برابر آپ کے برکات کا مشہدہ کرتے رہے
یہاں تک کہ دو سال پورے ہو گئے
اور میں نے آپ کا دودھ چھڑا دیا
حلیمہ صادیہ کا بیان ہے
کہ جس وقت آپ کا دودھ چھڑایا گیا
تو یہ کلمات آپ کی زبان پر جاری ہوئے
اللہ اکبر کبیرم والحمدللہ حمدن کثیرہ
وسبحان اللہ بکرطم واصیلہ
یہ آپ کا سب سے پہلا کلام تھا
حضور سرور عالم سید الکونین
محبوب رب المشرقین والمغربین
جد الحسن والحسین
حضرت احمد مصطفیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
تشریف لائے
تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خطاب فرمایا
لقد من اللہ علی المؤمنین
اذ بعث فیہم رسول
من انفسهم
يتلو علیهم
يتلو علیهم آیاته ویزکیهم
ویعلمهم الكتاب والحکمہ
وانکانو من قبل لفی غلال مبین
اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا ہے
کہ ان میں انی میں سے ایک رسول بھیجے
جن کی شان یہ ہے
کہ وہ اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں
ان کے دلوں کا تذکیہ کرتے ہیں
ان کو قرآن اور قرآن کی حکمتیں سکھاتے ہیں
اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے ناواقف تھے
حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر حالات کے بعد
اب ازواج متحرات
سب سے پہلے حضرت خدیجہ القبرہ رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت خدیجہ ایک اقل مند فہمیدہ عورت تھی
آپ کی شرافت اور محیر العقول اخلاق کو دیکھ کر
ان کو ایک سچا اعتقاد
پیدا ہو گیا تھا
جس سے حضرت خدیجہ نے خود ارادہ کیا
کہ آپ منظور فرما دیں
تو آپ ہی سے نکاح کر لیں
جب آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر
پچیس سال کی ہوئی
تو حضرت خدیجہ سے نکاح مقرر ہوا
حضرت خدیجہ کی عمر
اس وقت چالیس سال تھی
نکاح میں ابو طالب اور بنو حاشم
اور روسہ مذر سب جمع ہوئے
ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑا
اس خطبے میں ابو طالب نے
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق
جو الفاظ کہیں ہیں وہ سننے کے قابل ہیں
ترجمہ یہ ہے
یہ محمد ابن عبداللہ ہیں
جو اگرچہ مال میں کم ہیں
لیکن شریفان اخلاق اور کمالات کی وجہ سے
جس شخص کو آپ کے مقابلے میں
رکھا جائے آپ اس سے زیادہ
عالی مرتبہ نکلیں گے
کیونکہ مال ایک زائل ہو جانے والا سایہ
اور لٹنے والی چیز ہے
اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
جن کی قرابت کو تم سب جانتے ہو
خدیجہ بنت خولہ سے
نکاح کرنا چاہتے ہیں
اور ان کا کل مہر معجل اور موجل
میرے مال سے ہے
اور خدا کی قسم اس کے بعد
ان کی بڑی عزت اور عظمت ہونے والی ہے
الغرض
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
آپ کا نکاح ہو گیا
وہ آپ کی خدمت میں چوبیس سال رہی
کچھ مدت نزول وحی سے پہلے
اور کچھ مدت نزول وحی کے بعد
حضرت خدیجہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
آپ کے دو فرزند اور چار صاحبزادیاں
پیدا ہوئے ہیں
حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم
کے پہلے فرزند قاسم ہیں
یہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں
خدیجہ طاہرہ سے پیدا ہوئے ہیں
پاؤں پر چلنا سیکھ گئے تھے
کہ اللہ کی آغوش رحمت میں چلے گئے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی کنیت ابو القاسم
انہی کے نام پر ہے
دوسرے فرزند عبداللہ علیہ السلام ہیں
ان کا لقب طیب
معظمہ میں بحثت نبوت کے بعد
پیدا ہوئے تھے
مکہ معظمہ ہی میں وفات پائی
انہی کی وفات پر سورہ قوسر
کا نزول ہوا تھا
اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْقَوْسَرْ
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
اِنَّ شَانِئَكَهُوَالْأَبْتَرْ
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ہم نے آپ کو
خیرِ کثیر عطا فرمایا ہے
آپ نماز پڑھئے
قربانی دیجئے
آپ کا دشمن ہی مقتون نسل ہے
کفار سمجھتے تھے
کہ فرزند کے نبچنے سے
اب کوئی محمد کا نام لے
وہ باقی نہ رہا
ان کو معلوم نہ تھا
کہ زبور میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی تعریف میں اللہ نے فرمایا ہے
کہ میں ساری پشتوں کو
تیرا نام یاد دلاؤں گا
سارے لوگ عبدالعاباد تک
تیری ستائش کریں گے
پھر زبور میں یہ بھی ہے
کہ اس کا نام عبدالعاباد تک
باقی رہے گا
جب تک آفتاب رہے گا
اس کے نام کا رواج رہے گا
لوگ اس کے باعث اپنے تہی مبارک کہیں گے
ساری قومیں اسے مبارک بات دیں گی
پھر زبور میں یہ بھی فرمایا گیا ہے
کہ اس کے حق میں
صدا دعا ہوگی
ہر روز اس کی مبارک بات کہی جائے گی
انہی بشاراتِ صحفِ سابقہ
اور اعلانِ قرآنِ مبین
کا اثر ہے
کہ ان کافروں کا نام بھی آج کوئی نہیں لیتا
جن کو اپنی اولاد کا غرور تھا
بلکہ ان کی نسل کا کوئی بچہ بھی
اپنی نسبت وہاں تک نہیں پہنچاتا
لیکن حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم
کا ذکرِ خیر
اور اسمِ ہمائیو
ازان، تکبیل، تشہد
صلاة، دروت، کلمہِ طیب
میں زبانوں پر جاری
اور ساری ہے اور دلوں میں
جاگزی ہے
آپ کے تیسرے بیٹے حضرتِ ابراہیم
علیہ السلام ہیں
جو ماریہ قبطیہ سے پیدا ہوئے ہیں
اس بچے کا نام
آپ نے پیدرِ بزرگوار
خلیل الرحمن کے نام پر
ابراہیم رکھا
سیدنا ابراہیم کے ابھی ایامِ رضا
باقی تھے کہ وفار پا دے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے جب آخری وقت میں ان کو دیکھا
تو وہ سانس چھوڑ رہے تھے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کو گود میں اٹھایا
اور زبان سے فرمایا
ہم جانتے ہیں کہ موت
تو عمرِ حق اور وعدہِ صدق ہے
ہم جانتے ہیں
کہ پیچھے رہ جانے والے بھی
پہلے جانے والوں کے ساتھ جا ملیں گے
اگر ایسا نہ ہوتا
تو ہم ابراہیم کا
علم اس سے بھی زیادہ کرتے
آنکھ بھی نم ہے
دل میں غم ہے مگر ہم کوئی بات
ایسی نہ کہیں گے جو
رب العالمین کو ناپسند ہو
اتفاق یہ ہوا
کہ جس روز سیدنا ابراہیم کا انتقال
ہوا اسی روز سورج گرہن بھی ہوا
حضور پر نور
صلی اللہ علیہ وسلم کی
چار صاحب زادیاں
حضرت فاطمہ بیجمائے امت
تمام صاحب زادیوں میں افضل تھی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کے حق میں فرمایا ہے
کہ وہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں
ان کا نکاح
پندرہ برس ساڑھے پانچ ماہ کی عمر میں
حضرت علی کررم اللہ وجو سے ہوا
چار سو اسی درم
مہر مقرر کیا گیا
اس سیدت النساء کا جہیز کیا تھا
ایک چادر ایک تکھیہ
جس میں کھجور کے درخت کا گودہ
بھرا ہوا تھا ایک چمڑے کا
گدہ ایک بان کی
چار پائی ایک چھاگل
دو مٹی کے گھڑے دو
مشکیزے اور ایک چکی
طبقات ابن سعد
چکی پیسنا
اور گھر کے سب کاروبار خود
اپنے ہاتھ سے کرتی تھی
دونوں جہان کے سردار کی سب سے
زیادہ لادلی صاحب زادی کا نکاح
جہیز مہر یہ ہے
اور ان کی فقیرانہ زندگی
کا نقشہ یہ ہے کیا اس کو
دیکھ کر بھی وہ عورتیں نشرمائیں
کی جو بیعہ شادی کی رسموں میں دین
و دنیا کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں
اس میں خداوند تعالیٰ کی
کوئی بڑی حکمت تھی کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
پسری اولاد زندہ نہ
رہی صرف دختری اولاد
سے آپ کی نسل دنیا میں چلی ہے
لیکن بیٹیوں میں بھی صرف
حضرت فاطمہ کی اولاد باقی رہی ہے
دوسری صاحب زادیوں میں
بعض کی اولاد ہی نہیں ہوئی اور
بعض کی زندہ نہ رہی
حضرت فاطمہ
سب سے چھوٹی بیٹی ہیں
ان کے بعد ام کلسوم ہیں
اور ان کے بعد رقیہ ہیں
اور ان کے بعد زینب
یعنی زینب سب سے بڑی بیٹی ہیں
ہم نے حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر
پہلے اس لئے کر دیا کہ ان کو
تمام بیٹیوں پر فضیلت حاصل ہے
بہرحال حضرت زینب
کا نکاح ابو العاص ابن ربی سے
ہوا ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا
جو تھوڑی عمر میں انتقال کر گیا
اور ایک لڑکی امامہ پیدا ہوئی
جن سے حضرت علی کرم اللہ
جو نے حضرت فاطمہ کے بعد نکاح کیا
لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں
حضرت رقیہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کے نکاح میں آئیں اور حجرت حفشہ
میں آپ کے ساتھ رہیں دو حجری
میں غزوہ بدر سے واپسی
کے وقت لا اولاد دنیا
سے رخصت ہو گئیں ان کے
بعد تین حجری
ان کی دوسری بہن ام کلسوم
کا نکاح بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت عثمان ہی سے
کر دیا اور اسی وجہ سے
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کا لقب زن نورین قرار پایا
نو حجری میں ان کا انتقال
ہو گیا اس وقت آن حضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ اگر میرے پاس کوئی تیسری
لڑکی اور ہوتی تو اس کو بھی میں
عثمان کے نکاح میں دے دیتا
یہاں پر عورتیں یاد رکھیں
کہ سیرت کی معتبر روایات میں ہے
کہ ایک مرتبہ حضرت رقیہ
حضرت عثمان سے ناراض ہو کر
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے
شکایت کرنے آئیں آپ نے فرمایا
کہ مجھے پسند نہیں کہ عورت اپنے
خامند کی شکایت کیا کرے جاؤ
اپنے گھر بیٹھو
یہ ہے لڑکیوں کی وہ تعلیم جس سے
ان کی حیات دنیا و آخرت
دونوں درست ہو سکتی ہیں
حضور پر نور
صلی اللہ علیہ وسلم
کی زوجہ متحرہ حضرت
خدیط القبرہ کے بعد
آپ کی دیگر عورتوں کے حالات
حضور انور
صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت خدیجہ کی حیات میں
کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا
حجرت سے تین سال پہلے جب ان کی
وفات ہو گئی اور آپ کی عمر
ان انچاس برس پہنچی
تو اور خواتین بھی آپ کے نکاح
میں آئیں جن کے اسمائے گرامی
یہ ہیں
سودہ بنت زمعہ
عائشہ
حفصہ
زینب بنت
خزیمہ ام سلمہ
زینب بنت جہش
جویریہ
ام حبیبہ
صفیہ
میمونہ
یہ گیارہ ہیں جن میں دو سامنے وفات پا گئیں
اور نو آپ کی وفات
کے وقت زندہ تھی
اور یہ بیجمائے امت صرف آن حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی
امت کے لیے چار سے زائد
عورتیں ایک وقت میں بصورت نکاح
جمع کرنا جائز نہیں
اب باقی ازواج متحرات
کی تفسیم
حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ
یہ پہلے سکران بن عمر
نکاح میں تھی اس کے بعد آن حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں
حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالی عنہ
یہ حضرت عبود بکر صدیق رضی اللہ
تعالی عنہ کی صاحب زادی ہیں
چھ برس کی عمر میں تھی جب آپ سے
ان کا نکاح ہوا اور ہجرت کے
سال دس برس کی عمر میں
رخصت ہوئی اور جب آن حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی
تو آپ کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی اس نو سالہ
مساحبت سے آپ پر کیا رنچڑا
اور کیا حاصل ہوا اس کا حال
اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بڑے
بڑے صحابہ نے فرمایا کہ
ہمیں جب کسی مسئلے میں شک ہوتا تھا
تو عائشہ صدیقہ کے پاس اس کا علم
پاتے تھے یہی وجہ ہے کہ بڑے
بڑے عجلہ صحابہ آپ کی شاگرد
ہیں حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت عمر کی صاحب زادی
تھی پہلے انیس بن
حضافہ کے نکاح میں آئی تھی ان کے
بعد حجرس سے دوسرے یا
تیسرے برس آپ سے نکاح ہوا
حضرت زینب
بنت خزیمہ حلالیہ
رضی اللہ تعالی عنہ
ام البساقین کے نام سے معروف
ہیں پہلے توفیل
بن حارس کے نکاح میں تھی
اس نے طلاق دے دی پھر اس کے بھائی
عبیدہ سے نکاح ہو گیا جب یہ
بھی غزوہ بدر میں شہید ہو گئے
تو تین حجری میں غزوہ
احد سے ایک ماہ پہلے
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے نکاح میں آئی
اور صرف دو ماہ زندہ رہی
اور وفات پا گئی
ام المومنین زینب
بنت جہش رضی اللہ تعالی عنہ
یہ آن حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی
کی بیٹی ہیں آپ نے ان کا نکاح
زید ابن حارسہ سے کرنا
چاہا تھا جن کو آپ نے آزاد کر
کے اپنا متبنہ بنا رکھا تھا
مگر چونکہ حضرت زید
پر غلامی کا نام آ چکا تھا
اس لیے زینب اس عقد کو پسند
نہ کرتی تھی مگر بالاخر
حضور سرور عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل
ارشاد کے لیے راضی ہو گئی
ایک سال کے قریب زید کے نکاح میں
رہی مگر چونکہ طبعی
موافقت لتی ہمیشہ
شکر رنجی رہا کرتی تھی یہاں تک
کہ زید نے حضور سرور عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہو کر طلاق کا ارادہ ظاہر کیا
آپ نے ان کو سمجھا کر طلاق
سے روکا لیکن پھر جب کسی طرح
موافقت نہ ہوئی تو ان کو
طلاق ہو گئی جب وہ
آزاد ہو گئی تو آپ نے ان کی
تسلی اور دل جوئی کے لیے ان سے نکاح
کرنا چاہا لیکن اس وقت
عرب کے خیال میں متبنہ
کو اصلی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا
چونکہ یہ جاہلیت کی رسم
تھی جس کا مٹانا اسلام
کا فرض تھا اس لیے آیت نازل
ہوئی کہ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں
حالانکہ ڈرنا اللہ سے چاہیے
سورہ احساب
غرض سن چار حجری میں
خداوند عالم کے حکم سے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے خود ان سے نکاح کر لیا
تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے
کہ لے پالک یعنی متبنہ
اصلی بیٹے کا حکم نہیں رکھتا
اس کی بیوی بات قطع تعلق
کے حرام نہیں ہوتی اور جن
لوگوں نے خدا کے اس حلال کو عقیدتا
یا عملا حرام کر رکھا ہے
وہ آئندہ اس غلطی سے نکل جائیں
اور جاہلیت کی یہ رسم
ٹوٹ جائے لیکن اس دیلی
نہ رسم کا ٹوٹ نہ جب ہی ممکن
تاکہ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم
خود عملا اس کا نفاس کرے
صحیح بخاری کی شرح میں
حافظ حدیث علامہ ابن حجر
نے اس واقعے کو نقل کیا ہے
اور اس کی سند بیان کی ہے
حضرت صفیہ بنت ہوئی
رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت حارون علیہ السلام
کی اولاد سے ہیں یہ صرف ان کی
خصوصیت تھی کہ ایک نبی کی
صاحبزادی اور ایک نبی کی زوجہ تھی
پہلے کنانہ ابن الحقیق
کے نکاح میں تھی ان کے قتل
کے بعد آپ کے نکاح میں آئیں
حضرت جویریہ بنت حارس
یہ خزائیہ
بن المسلق کے سردار حارس کی بیٹھی ہیں
جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں
تھی پھر آپ کے نکاح میں آئیں
اور اس کی بدولت تمام قبیلہ
آپ کا آزاد ہو گیا اور ان کے
باپ مسلمان ہو گئے
حضرت میمونہ
بنت حارس حلالیہ رضی اللہ تعالی عنہ
یہ اول
مسعود ابن عمر کے نکاح میں تھی
اس نے طلاق دے دی
تو ابو رحم سے نکاح ہو گیا
ان کی وفات کے بعد
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں
یہ آپ کی آخری
زوجہ میں سے ہیں
سید المرسلین خاتم النبیین رحمت العالمین کا ذکر پاک
اور آپ کے مقدس گھرانے کے مقدس حالات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب متحر تمام دنیا سے زیادہ شریف اور پاک ہے
اور یہ وہ بات ہے کہ تمام کفار مکہ اور آپ کے دشمن بھی اس سے انکار نہ کر سکے
ابو سفیان نے بحالتِ کفر شاہِ روم کے سامنے اس کا اقرار کیا
حالکہ اس وقت چاہتے تھے کہ اگر کوئی گنجائش ملے تو آپ پر عیب لگائیں
آپ کا نسب شریف والدِ ماجد کی طرف سے یہ ہے
محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن حاشم بن عبد منعف بن قسی بن قلاب بن مرہ بن قعب بن لوئی بن غالب
بن فہر بن مالک بن نظر بن کنانا بن خزیمہ بن مدرکہ بن علیاس بن مزر بن نظار بن معد بن عجنان
یہاں تک سلسلہ نسب بیجمائی امت ثابت ہے
اور والدہِ ماجدہ کی طرف سے آپ کا نسب یہ ہے
محمد بن عامنہ بن طبح بن عبد منعف بن زہرہ بن قلاب
معلوم ہوا کہ قلاب بن مرہ میں آپ کے والدین کا نسب جمع ہے
ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ جبریل نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ میں نے مشرق سے مغرب تک تمام زمین کو چھانڈ ڈالا
مگر بنی حاشم سے افضل اور بہتر کسی کو نہ پایا
حکیم ترمزی فرماتے ہیں کہ جبریل امین نے پاک نفوس کی تلاش میں زمین کا چکر لگایا
مگر زمانہ چونکہ جاہلیت کا تھا اس لیے جبریل نے ظاہری افعال و عامال پر نظر نہ کی
بلکہ فطرت اور استعداد پر نظر کی
اس اعتبار سے عموماً عرب اور خاص بنی حاشم سے کسی کو افضل نہ پایا
اس زمانے میں عرب کو تمام اقوام عالم پر چند وجوہ سے ایسا تفوق اور انتیاز حاصل تھا
کہ کوئی قوم ان کی ہمپلہ اور ہمسر نہ تھی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی حاشم میں سے تھے
جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں دنیا کے مشرق و مغرب میں پھرا
مگر بنی حاشم سے افضل کوئی خاندان نہیں دیکھا
بنی حاشم کے سردار حضرت عبد المطلب ہے
حضرت عبد المطلب
عبد المطلب کا نام شیبت الحمد تھا
نہایت حسین و جمیل تھے
ایک شاعر کہتا ہے
علی شیبت الحمد اللذی کان وجہہو
یغیظ لام اللیل کالقمر البدری
چودنی رات کے چاند کی طرح شیبت الحمد کا چہرہ رات کی تاریکی کو روشن کرتا تھا
عبد المطلب کے لفظی معنی
مطلب کا غلام ہے
حاشم کے انتقال کے بعد
عبد المطلب کی والدہ ایک عرصے تک مدینہ منورہ میں
اپنے میکے بنی خزرج ہی میں مقیم رہی
جب عبد المطلب ذرا بڑے ہو گئے
تو ان کے چچا مطلب ان کے لینے کے لیے مکہ سے مدینہ آئے
جب ان کو لے کر واپس ہوئے تو مکہ میں داخل ہوتے وقت
عبد المطلب اپنے چچا مطلب کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے
شہبہ کے کپڑے میلے کچیلے اور گرد آلود تھے
اور چہرے سے یتیمی چپکتی تھی
لوگوں نے مطلب سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے
مطلب نے حیاء کی وجہ سے یہ کہہ دیا کہ یہ میرا غلام ہے
کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ بھتیجہ ایسے میلے کچیلے کپڑوں میں کیوں ہے
اس لیے عبد المطلب کے نام سے مشہور ہو گئے
مطلب نے مکہ پہنچ کر بھتیجے کو عمدہ لباس پہنایا
اور اس وقت ظاہر کیا کہ یہ میرا بھتیجہ ہے
ابن سعید طبقات میں روایت کرتے ہیں
کہ عبد المطلب تمام قریش میں سب سے زیادہ حسین و جمیل
اور سب سے زیادہ قوی اور جسیم
اور سب سے زیادہ بردبار اور حلیم
اور سب سے زیادہ سخی اور کریم
اور سب سے زیادہ شر اور فتنے سے دور بھاگنے والے تھے
اور قریش کے مسلم سردار تھے
حضرت عبد المطلب کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے
کہ آپ نے چاہے زمزم کو دوبارہ نکالا
یہ ایک عرصے سے بند پڑا ہوا تھا
اور کسی کو علم بھی نہ تھا
کہ یہاں پر کوئی کنہ بند ہے
لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل کے ذریعے
یا کسی فرشتے کے ذریعے
آپ کو خواب میں متعلق کیا
اور آپ سے کہا گیا کہ اس جگہ کو کھو دیں
چنانچہ آپ کو نشان بھی بتایا گیا
اور آپ نے وہ جگہ کھو دی
تو آپ زمزم دوبارہ نکلا
چاہے زمزم کے کھوتے وقت
عبد المطلب کا سوائے اکلوتے بیٹے حارس کے
اور کوئی یار و مددگار نہ تھا
اس لیے انہوں نے منت مانی
کہ اگر حق تعالیٰ مجھ کو دس بیٹے عطا فرمائے
جو جوان ہو کر میرے دست و بازو بنے
تو ایک فرزند کو اللہ کے نام پر زباہ کروں گا
جب اللہ نے ان کی یہ تمنا اور عدو پوری کی
اور دس بیٹے پورے ہو گئے
تو ایک رات خانہ کعبے کے سامنے سو رہے تھے
تو خواب میں دیکھا
کہ ایک شخص کہہ رہا ہے
اے عبد المطلب اس نظر کو پورا کرو
جو آپ نے اللہ کے گھر کے مالک کے لیے مانی تھی
جو جمع کیا
اور اپنی نظر اور خواب کی خبر دی
سب نے ایک زبان ہو کر کہا
آپ اپنی نظر پوری کریں
اور جو چاہے کریں
عبد المطلب نے سب بیٹوں کے نام پر قرآن ڈالا
حسن اتفاق سے قرآن حضرت عبداللہ کے نام پر نکلا
جو جناب نبی اکرم سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ہیں
اور جن کو عبد المطلب سب سے زیادہ محبوب رکھتے تھے
عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر
مذبے یعنی قربانگاہ کی طرف چلے
اور چھوری ساتھ تھی
حضرت عبداللہ کی بہنیں یہ دیکھ کر رونے لگیں
اور ان میں سے ایک بہن نے یہ کہا
کہ اے باپ آپ دس اونٹوں اور عبداللہ ہمیں قرآن ڈال کر دیکھئے
اگر قرآن اونٹوں کے نام پر نکل آئے
تو دس اونٹوں کی قربانی کر دیجئے
اور ہمارے بھائی عبداللہ کو چھوڑ دیجئے
اور اس وقت دس اونٹ ایک آدمی کی دیت اور خون بہا ہوتے تھے
قرآن ڈالا گیا
تو اتفاق سے حضرت عبداللہ ہی کے نام پر نکلا
عبدالمطلب دس دس اونٹ زیادہ کر کے قرآن ڈالتے جاتے تھے
مگر قرآن عبداللہ ہی کے نام پر نکلتا تھا
یہاں تک کہ سو اونٹ پورے کر کے قرآن ڈالا گیا
تو قرآن اونٹوں کے نام پر نکلا
اس وقت عبدالمطلب اور تمام حاضرین نے اللہ و ابر کہا
بہنیں اپنے بھائی عبداللہ کو اٹھا لائیں
اور عبدالمطلب نے وہ سو اونٹ صفا اور مربع کے ماہ بین نہر کیے
یعنی زباہ کر دیئے
ابن عباس فرماتے ہیں
کہ اول دیت کی مقدار دس اونٹ تھی
سب سے پہلے عبدالمطلب نے قریش اور تمام عرب میں یہ سنت جاری کی
کہ ایک آدمی کی دیت سو اونٹ ہیں
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی کو برقرار رکھا
اسی واقعے کے بعد سے حضرت عبداللہ زبیح کے نام سے موسم ہوئے
اور اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
ابن الزبیحین کہتے ہیں
یعنی دو زبیحی کے فرزن
عبدالمطلب جب عبداللہ کی فدیعے سے فارغ ہوئے
تو شادی کی فکر دامنگیر ہوئی
قبیلہ بنی زہرہ جو شرافت نسبی میں ممتاز تھا
اس میں وہاب ابن عبدالمناف کی صاحبزادی سے جن کا نام آمنہ تھا
اور اپنے چچا وہیب بن عبدالمناف کی زیر تربیت تھی
ان سے حضرت عبداللہ کے نکاح کا پیام دیا
اور خود زہیب حضرت آمنہ کے چچا
چچا کی صاحبزادی جن کا نام حالہ تھا
ان سے عبدالمطلب نے خود اپنے نکاح کا پیام دیا
ایک ہی مجلس میں دونوں نکاح پڑھائے گئے
حضرت حمزہ انہی کی بطن سے
ابن عباس فرماتے ہیں
کہ جب عبدالمطلب اپنے فرزند عبداللہ کو نکاح کے لیے لے کر چلے
تو راستے میں ایک یہودی عورت پر گزر ہوا
جس کا نام فاطمہ بنت مر تھا
اور توریت و انجیل وغیرے سے بخوبی واقف تھی
حضرت عبداللہ کے چہرے میں نور نبوت دیکھ کر اپنی طرف بلایا
اور یہ کہا کہ میں تجھ کو سو اونٹ نظر کروں گی
حضرت عبداللہ نے جواب میں کہا
حرام کے ارتکاب سے موت آسان ہے
اور ایسا فعل بالکل حلال نہیں
جس کو معرضِ ظہور میں لا سکوں
جس ناجائز عمر کی تو طلبگار ہے وہ مجھ سے کیسے ممکن ہے
کریم النفس آدمی تو اپنی عابرو
اور اپنے دین کی پوری حمایت اور حفاظت کرتا ہے
حضرت عبداللہ جب حضرت آمنہ سے نکاح کر کے واپس ہوئے
تو واپسی میں پھر اسی عورت پر گزر ہوا
تو اس نے دریافت کیا کہ
اے عبداللہ تم یہاں سے جانے کے بعد کہاں رہے
حضرت عبداللہ نے کہا کہ میں نے
اس عرصے میں وحاب ابن عبد المنافقی صاحب زادی آمنہ سے نکاح کیا
اور نکاح کے بعد تین روز وہاں قیام کیا
اس یہودی عورت نے سن کر کہا
کہ واللہ میں کوئی بدکار عورت نہیں
تمہارے چہرے میں نور نبوت کو دیکھ کر یہ چاہا تھا
کہ یہ نور میری طرف منتقل ہو جائے
لیکن اللہ نے جہاں چاہا وہاں اس نور کو ودیت رکھا
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باس عادت سے پہلے
اصحاب فیل کا ایک واقعہ گزرا ہے
اصحاب فیل نے بیت اللہ پر حملہ کیا
اور خداوند عالم نے ان کو ابابیب
یعنی چند حقیر جانوروں کی ٹکڑیوں کے ذریعے شکست دی
جس کا اجمالی واقعہ قرآن عزید میں بھی موجود ہے
اور در حقیقت واقعہ فیل بھی
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باس عادت کی برکات کا مقدمہ تھا
بعض مورخین نے لکھا ہے
کہ واقعہ فیل بیس اپریل سن پانچ سو سترہ عیسوی میں ہوا ہے
جس سے معلوم ہوا کہ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو اکھتر سال بعد میں ہوئی ہے
الغرض
جس سال اصحاب فیل کا حملہ ہوا
اس کے ماہ ربیل اول کی بارویں تاریخ
روز دو شمبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالہ دن ہے
کہ آج پیدائش عالم کا مقصد لیل و نہار کے انقلاب کی اصلی غرض
آدم اور اولاد آدم کا فخر
کشتی نوح کی حفاظت کا راز
ابراہیم کی دعا اور موسیٰ و عیسیٰ کی پیشین گوئیوں کا مصداق
یعنی ہمارے آقا نامدار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
رونق افروض عالم ہوتے ہیں
ادھر دنیا کے بدکدے میں آفتاب نبوت کا ظہور ہوتا ہے
ادھر ملک فارس کے کسرہ کے محل میں زلزلہ آتا ہے
جس سے اس کے چودہ کنگرے گر جاتے ہیں
بحیرہ سادہ کے ملک فارس کا ایک دریہ دفعتاً خوشک ہو جاتا ہے
فارس کے آتش کدے کی وہ آگ
جو ایک ہزار سال سے کبھی نہ بجیتی خود بخود سرد ہو جاتی ہے
اور یہ در حقیقت آتش پرستی اور ہر گمراہی کے خاتمہ کا اعلان
فارس و روم کی ستنتوں کے ذوال کی طرف اشارہ ہے
صحیح احادیث میں ہے
کہ ولادت کے وقت آپ کی والدہ ماجدہ کی بطن سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا
جس سے مشق و مغرب روشن ہو گئے
اور بعض روایات میں ہے
کہ آپ زمین پر جلوہ افروض ہوئے
تو دونوں ہاتھوں پر سہارے دیئے ہوئے تھے
پھر آپ نے خات کی مٹھی بھری اور آسمان کی طرف دیکھا
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک پیدا نہیں ہوئے تھے
کہ آپ کے والد ماجدہ
عبداللہ کو ان کے والد عبدالمطلب نے حکم کیا
کہ مدینہ تیبہ سے خجوریں لائیں
عبداللہ آپ کو بصورت حمل چھوڑ کر مدینہ چلے گئے
اتفاقاً وہیں ان کی وفات ہو گئی
اور والد کا سایہ پیدائش سے پہلے ہی سر سے اٹھ گیا
سب سے پہلے آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ نے
اور چند روز کے بعد ابو لہب کی کنیز سویبہ نے دودھ پلایا
اس کے بعد یہ دورت خدادات حلیمہ سادیہ کو نصیب ہوئی
حلیمہ سادیہ کے بھی کچھ حالات سنتے چلیے
شرفاء عرب کی عام عادت تھی
کہ بچوں کو دودھ پلانے کے لیے گرد و جوار کے دیہات میں بھیج دیتے تھے
جس سے بچوں کی جسمانی صحت بھی اچھی ہو جاتی تھی
اور وہ خاص عربی بھی سید جاتے تھے
اور اسی لیے گاؤں کی عورتیں اکثر شہروں میں شیر خوار بچے لینے کے لیے جایا کرتی تھی
حلیمہ سادیہ کہتی ہے
کہ ہم مکہ پہنچے
تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو جو عورت دیکھتی تھی
اور یہ سنتی کہ آپ یتیم ہیں تو کوئی قبول نہ کرتی
کیونکہ زیادہ انعام و اکرام کی توقع نہ تھی
ادھر حلیمہ کی قسمت کا ستارہ چمک رہا تھا
ان کے دودھ کی کمی ان کے لیے رحمت بن گئی
کیونکہ دودھ کم دیکھ کر کسی نے ان کو اپنا بچہ دینا گوارا نہ کیا
حلیمہ فرماتی ہے
کہ میں نے اپنے شوہر سے کہا
کہ یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا
کہ خالی ہاتھ واپس جائیں
خالی سے بہتر ہے کہ اس یتیم کو لے چلیں
شوہر نے منظور کیا
اور یہ اس در یتیم کو لے کر آئیں
جس سے آمنہ اور حلیمہ کی گھر نہیں
بلکہ مشرق و مغرب میں اجالہ ہونے والا تھا
خدا کا فضل تھا
کہ حلیمہ کی قسمت جاگی
اور سرور کائنات صلى الله عليه وسلم ان کی گود میں آگئے
یہ دودھ پلانے بیٹھیں
تو برکات کا ظہور شروع ہو گیا
اس قدر دودھ اترا کہ آپ نے بھی
اور آپ کے رضائی بھائی نے بھی خوب سیر ہو کر پیا
اور آرام سے سو گئے
ادھر اونٹنی کو دیکھا
تو اس کے تھن دودھ سے لبریز تھے
میرے شوہر نے اس کا دودھ نکالا
اور ہم سب نے سیر ہو کر پیا
اور رات بھر آرام سے گزاری
مدتوں بعد پہلی رات تھی
کہ ہم اتمنان کے ساتھ نیند بھر کر کے سوئے
اب تو میرا شوہر بھی کہنے لگا
کہ حلیمہ تم تو بڑا ہی مبارک بچہ لائی ہو
میں نے کہا کہ مجھے بھی یہی توقع ہے
کہ یہ نہایت مبارک لڑکا ہے
اس کے بعد
اسے روانہ ہوئے
میں آپ کو گود میں لے کر
اسی اونٹنی پر سوار ہوئی
جو چل نہ سکتی تھی
مگر اس مرتبہ خدا کی قدرت کا یہ تماشاں دیکھتی ہوں
کہ اب وہ اتنا تیز چل رہی ہے
کہ کسی کی سواری اس کی گرد کو نہیں پہنچتی
میری ہمراہی عورت نے تاجب سے کہنے لگی
کہ یہ وہی ہے جس پر تم آئیں تھی
الغرض راستہ قطع ہوا
ہم گھر پہنچے
وہاں سخت قہد پڑا ہوا تھا
تمام دودھ کے جانور دودھ سے خالی تھے
لیکن میرا گھر میں داخل ہونا تھا
اور میری بکریوں کا دودھ سے بھرنا
اب روز میری بکریوں دودھ سے بھری آتی ہیں
اور کسی کو ایک قطرہ بھی نہیں ملتا
میری قوم کے لوگوں نے اپنے چرواہوں سے کہا
کہ تم بھی اپنے جانور اسی جگہ چراؤ جہاں
حلیمہ کی بکریوں چراتی ہیں
مگر وہاں تو چراغاہ اور جنگل کی خصوصیت نہ تھی
بلکہ کسی اور ہی لال کے خاطر مندور تھی
اس کو وہ لوگ کہاں سے لاتے
چنانچہ ایک ہی جگہ چرنے کے بعد بھی
ان کے جانور دودھ سے خالی اور میری بکریوں بھری ہوئی آتی تھی
اسی طرح ہم برابر آپ کے برکات کا مشہدہ کرتے رہے
یہاں تک کہ دو سال پورے ہو گئے
اور میں نے آپ کا دودھ چھڑا دیا
حلیمہ صادیہ کا بیان ہے
کہ جس وقت آپ کا دودھ چھڑایا گیا
تو یہ کلمات آپ کی زبان پر جاری ہوئے
اللہ اکبر کبیرم والحمدللہ حمدن کثیرہ
وسبحان اللہ بکرطم واصیلہ
یہ آپ کا سب سے پہلا کلام تھا
حضور سرور عالم سید الکونین
محبوب رب المشرقین والمغربین
جد الحسن والحسین
حضرت احمد مصطفیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
تشریف لائے
تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خطاب فرمایا
لقد من اللہ علی المؤمنین
اذ بعث فیہم رسول
من انفسهم
يتلو علیهم
يتلو علیهم آیاته ویزکیهم
ویعلمهم الكتاب والحکمہ
وانکانو من قبل لفی غلال مبین
اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا ہے
کہ ان میں انی میں سے ایک رسول بھیجے
جن کی شان یہ ہے
کہ وہ اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں
ان کے دلوں کا تذکیہ کرتے ہیں
ان کو قرآن اور قرآن کی حکمتیں سکھاتے ہیں
اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے ناواقف تھے
حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر حالات کے بعد
اب ازواج متحرات
سب سے پہلے حضرت خدیجہ القبرہ رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت خدیجہ ایک اقل مند فہمیدہ عورت تھی
آپ کی شرافت اور محیر العقول اخلاق کو دیکھ کر
ان کو ایک سچا اعتقاد
پیدا ہو گیا تھا
جس سے حضرت خدیجہ نے خود ارادہ کیا
کہ آپ منظور فرما دیں
تو آپ ہی سے نکاح کر لیں
جب آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر
پچیس سال کی ہوئی
تو حضرت خدیجہ سے نکاح مقرر ہوا
حضرت خدیجہ کی عمر
اس وقت چالیس سال تھی
نکاح میں ابو طالب اور بنو حاشم
اور روسہ مذر سب جمع ہوئے
ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑا
اس خطبے میں ابو طالب نے
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق
جو الفاظ کہیں ہیں وہ سننے کے قابل ہیں
ترجمہ یہ ہے
یہ محمد ابن عبداللہ ہیں
جو اگرچہ مال میں کم ہیں
لیکن شریفان اخلاق اور کمالات کی وجہ سے
جس شخص کو آپ کے مقابلے میں
رکھا جائے آپ اس سے زیادہ
عالی مرتبہ نکلیں گے
کیونکہ مال ایک زائل ہو جانے والا سایہ
اور لٹنے والی چیز ہے
اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
جن کی قرابت کو تم سب جانتے ہو
خدیجہ بنت خولہ سے
نکاح کرنا چاہتے ہیں
اور ان کا کل مہر معجل اور موجل
میرے مال سے ہے
اور خدا کی قسم اس کے بعد
ان کی بڑی عزت اور عظمت ہونے والی ہے
الغرض
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
آپ کا نکاح ہو گیا
وہ آپ کی خدمت میں چوبیس سال رہی
کچھ مدت نزول وحی سے پہلے
اور کچھ مدت نزول وحی کے بعد
حضرت خدیجہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
آپ کے دو فرزند اور چار صاحبزادیاں
پیدا ہوئے ہیں
حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم
کے پہلے فرزند قاسم ہیں
یہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں
خدیجہ طاہرہ سے پیدا ہوئے ہیں
پاؤں پر چلنا سیکھ گئے تھے
کہ اللہ کی آغوش رحمت میں چلے گئے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی کنیت ابو القاسم
انہی کے نام پر ہے
دوسرے فرزند عبداللہ علیہ السلام ہیں
ان کا لقب طیب
معظمہ میں بحثت نبوت کے بعد
پیدا ہوئے تھے
مکہ معظمہ ہی میں وفات پائی
انہی کی وفات پر سورہ قوسر
کا نزول ہوا تھا
اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْقَوْسَرْ
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
اِنَّ شَانِئَكَهُوَالْأَبْتَرْ
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ہم نے آپ کو
خیرِ کثیر عطا فرمایا ہے
آپ نماز پڑھئے
قربانی دیجئے
آپ کا دشمن ہی مقتون نسل ہے
کفار سمجھتے تھے
کہ فرزند کے نبچنے سے
اب کوئی محمد کا نام لے
وہ باقی نہ رہا
ان کو معلوم نہ تھا
کہ زبور میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی تعریف میں اللہ نے فرمایا ہے
کہ میں ساری پشتوں کو
تیرا نام یاد دلاؤں گا
سارے لوگ عبدالعاباد تک
تیری ستائش کریں گے
پھر زبور میں یہ بھی ہے
کہ اس کا نام عبدالعاباد تک
باقی رہے گا
جب تک آفتاب رہے گا
اس کے نام کا رواج رہے گا
لوگ اس کے باعث اپنے تہی مبارک کہیں گے
ساری قومیں اسے مبارک بات دیں گی
پھر زبور میں یہ بھی فرمایا گیا ہے
کہ اس کے حق میں
صدا دعا ہوگی
ہر روز اس کی مبارک بات کہی جائے گی
انہی بشاراتِ صحفِ سابقہ
اور اعلانِ قرآنِ مبین
کا اثر ہے
کہ ان کافروں کا نام بھی آج کوئی نہیں لیتا
جن کو اپنی اولاد کا غرور تھا
بلکہ ان کی نسل کا کوئی بچہ بھی
اپنی نسبت وہاں تک نہیں پہنچاتا
لیکن حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم
کا ذکرِ خیر
اور اسمِ ہمائیو
ازان، تکبیل، تشہد
صلاة، دروت، کلمہِ طیب
میں زبانوں پر جاری
اور ساری ہے اور دلوں میں
جاگزی ہے
آپ کے تیسرے بیٹے حضرتِ ابراہیم
علیہ السلام ہیں
جو ماریہ قبطیہ سے پیدا ہوئے ہیں
اس بچے کا نام
آپ نے پیدرِ بزرگوار
خلیل الرحمن کے نام پر
ابراہیم رکھا
سیدنا ابراہیم کے ابھی ایامِ رضا
باقی تھے کہ وفار پا دے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے جب آخری وقت میں ان کو دیکھا
تو وہ سانس چھوڑ رہے تھے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کو گود میں اٹھایا
اور زبان سے فرمایا
ہم جانتے ہیں کہ موت
تو عمرِ حق اور وعدہِ صدق ہے
ہم جانتے ہیں
کہ پیچھے رہ جانے والے بھی
پہلے جانے والوں کے ساتھ جا ملیں گے
اگر ایسا نہ ہوتا
تو ہم ابراہیم کا
علم اس سے بھی زیادہ کرتے
آنکھ بھی نم ہے
دل میں غم ہے مگر ہم کوئی بات
ایسی نہ کہیں گے جو
رب العالمین کو ناپسند ہو
اتفاق یہ ہوا
کہ جس روز سیدنا ابراہیم کا انتقال
ہوا اسی روز سورج گرہن بھی ہوا
حضور پر نور
صلی اللہ علیہ وسلم کی
چار صاحب زادیاں
حضرت فاطمہ بیجمائے امت
تمام صاحب زادیوں میں افضل تھی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کے حق میں فرمایا ہے
کہ وہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں
ان کا نکاح
پندرہ برس ساڑھے پانچ ماہ کی عمر میں
حضرت علی کررم اللہ وجو سے ہوا
چار سو اسی درم
مہر مقرر کیا گیا
اس سیدت النساء کا جہیز کیا تھا
ایک چادر ایک تکھیہ
جس میں کھجور کے درخت کا گودہ
بھرا ہوا تھا ایک چمڑے کا
گدہ ایک بان کی
چار پائی ایک چھاگل
دو مٹی کے گھڑے دو
مشکیزے اور ایک چکی
طبقات ابن سعد
چکی پیسنا
اور گھر کے سب کاروبار خود
اپنے ہاتھ سے کرتی تھی
دونوں جہان کے سردار کی سب سے
زیادہ لادلی صاحب زادی کا نکاح
جہیز مہر یہ ہے
اور ان کی فقیرانہ زندگی
کا نقشہ یہ ہے کیا اس کو
دیکھ کر بھی وہ عورتیں نشرمائیں
کی جو بیعہ شادی کی رسموں میں دین
و دنیا کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں
اس میں خداوند تعالیٰ کی
کوئی بڑی حکمت تھی کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
پسری اولاد زندہ نہ
رہی صرف دختری اولاد
سے آپ کی نسل دنیا میں چلی ہے
لیکن بیٹیوں میں بھی صرف
حضرت فاطمہ کی اولاد باقی رہی ہے
دوسری صاحب زادیوں میں
بعض کی اولاد ہی نہیں ہوئی اور
بعض کی زندہ نہ رہی
حضرت فاطمہ
سب سے چھوٹی بیٹی ہیں
ان کے بعد ام کلسوم ہیں
اور ان کے بعد رقیہ ہیں
اور ان کے بعد زینب
یعنی زینب سب سے بڑی بیٹی ہیں
ہم نے حضرت فاطمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر
پہلے اس لئے کر دیا کہ ان کو
تمام بیٹیوں پر فضیلت حاصل ہے
بہرحال حضرت زینب
کا نکاح ابو العاص ابن ربی سے
ہوا ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا
جو تھوڑی عمر میں انتقال کر گیا
اور ایک لڑکی امامہ پیدا ہوئی
جن سے حضرت علی کرم اللہ
جو نے حضرت فاطمہ کے بعد نکاح کیا
لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں
حضرت رقیہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کے نکاح میں آئیں اور حجرت حفشہ
میں آپ کے ساتھ رہیں دو حجری
میں غزوہ بدر سے واپسی
کے وقت لا اولاد دنیا
سے رخصت ہو گئیں ان کے
بعد تین حجری
ان کی دوسری بہن ام کلسوم
کا نکاح بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت عثمان ہی سے
کر دیا اور اسی وجہ سے
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کا لقب زن نورین قرار پایا
نو حجری میں ان کا انتقال
ہو گیا اس وقت آن حضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ اگر میرے پاس کوئی تیسری
لڑکی اور ہوتی تو اس کو بھی میں
عثمان کے نکاح میں دے دیتا
یہاں پر عورتیں یاد رکھیں
کہ سیرت کی معتبر روایات میں ہے
کہ ایک مرتبہ حضرت رقیہ
حضرت عثمان سے ناراض ہو کر
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے
شکایت کرنے آئیں آپ نے فرمایا
کہ مجھے پسند نہیں کہ عورت اپنے
خامند کی شکایت کیا کرے جاؤ
اپنے گھر بیٹھو
یہ ہے لڑکیوں کی وہ تعلیم جس سے
ان کی حیات دنیا و آخرت
دونوں درست ہو سکتی ہیں
حضور پر نور
صلی اللہ علیہ وسلم
کی زوجہ متحرہ حضرت
خدیط القبرہ کے بعد
آپ کی دیگر عورتوں کے حالات
حضور انور
صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت خدیجہ کی حیات میں
کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا
حجرت سے تین سال پہلے جب ان کی
وفات ہو گئی اور آپ کی عمر
ان انچاس برس پہنچی
تو اور خواتین بھی آپ کے نکاح
میں آئیں جن کے اسمائے گرامی
یہ ہیں
سودہ بنت زمعہ
عائشہ
حفصہ
زینب بنت
خزیمہ ام سلمہ
زینب بنت جہش
جویریہ
ام حبیبہ
صفیہ
میمونہ
یہ گیارہ ہیں جن میں دو سامنے وفات پا گئیں
اور نو آپ کی وفات
کے وقت زندہ تھی
اور یہ بیجمائے امت صرف آن حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی
امت کے لیے چار سے زائد
عورتیں ایک وقت میں بصورت نکاح
جمع کرنا جائز نہیں
اب باقی ازواج متحرات
کی تفسیم
حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ
یہ پہلے سکران بن عمر
نکاح میں تھی اس کے بعد آن حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں
حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالی عنہ
یہ حضرت عبود بکر صدیق رضی اللہ
تعالی عنہ کی صاحب زادی ہیں
چھ برس کی عمر میں تھی جب آپ سے
ان کا نکاح ہوا اور ہجرت کے
سال دس برس کی عمر میں
رخصت ہوئی اور جب آن حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی
تو آپ کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی اس نو سالہ
مساحبت سے آپ پر کیا رنچڑا
اور کیا حاصل ہوا اس کا حال
اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بڑے
بڑے صحابہ نے فرمایا کہ
ہمیں جب کسی مسئلے میں شک ہوتا تھا
تو عائشہ صدیقہ کے پاس اس کا علم
پاتے تھے یہی وجہ ہے کہ بڑے
بڑے عجلہ صحابہ آپ کی شاگرد
ہیں حضرت حفصہ
رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت عمر کی صاحب زادی
تھی پہلے انیس بن
حضافہ کے نکاح میں آئی تھی ان کے
بعد حجرس سے دوسرے یا
تیسرے برس آپ سے نکاح ہوا
حضرت زینب
بنت خزیمہ حلالیہ
رضی اللہ تعالی عنہ
ام البساقین کے نام سے معروف
ہیں پہلے توفیل
بن حارس کے نکاح میں تھی
اس نے طلاق دے دی پھر اس کے بھائی
عبیدہ سے نکاح ہو گیا جب یہ
بھی غزوہ بدر میں شہید ہو گئے
تو تین حجری میں غزوہ
احد سے ایک ماہ پہلے
آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے نکاح میں آئی
اور صرف دو ماہ زندہ رہی
اور وفات پا گئی
ام المومنین زینب
بنت جہش رضی اللہ تعالی عنہ
یہ آن حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی
کی بیٹی ہیں آپ نے ان کا نکاح
زید ابن حارسہ سے کرنا
چاہا تھا جن کو آپ نے آزاد کر
کے اپنا متبنہ بنا رکھا تھا
مگر چونکہ حضرت زید
پر غلامی کا نام آ چکا تھا
اس لیے زینب اس عقد کو پسند
نہ کرتی تھی مگر بالاخر
حضور سرور عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل
ارشاد کے لیے راضی ہو گئی
ایک سال کے قریب زید کے نکاح میں
رہی مگر چونکہ طبعی
موافقت لتی ہمیشہ
شکر رنجی رہا کرتی تھی یہاں تک
کہ زید نے حضور سرور عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہو کر طلاق کا ارادہ ظاہر کیا
آپ نے ان کو سمجھا کر طلاق
سے روکا لیکن پھر جب کسی طرح
موافقت نہ ہوئی تو ان کو
طلاق ہو گئی جب وہ
آزاد ہو گئی تو آپ نے ان کی
تسلی اور دل جوئی کے لیے ان سے نکاح
کرنا چاہا لیکن اس وقت
عرب کے خیال میں متبنہ
کو اصلی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا
چونکہ یہ جاہلیت کی رسم
تھی جس کا مٹانا اسلام
کا فرض تھا اس لیے آیت نازل
ہوئی کہ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں
حالانکہ ڈرنا اللہ سے چاہیے
سورہ احساب
غرض سن چار حجری میں
خداوند عالم کے حکم سے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے خود ان سے نکاح کر لیا
تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے
کہ لے پالک یعنی متبنہ
اصلی بیٹے کا حکم نہیں رکھتا
اس کی بیوی بات قطع تعلق
کے حرام نہیں ہوتی اور جن
لوگوں نے خدا کے اس حلال کو عقیدتا
یا عملا حرام کر رکھا ہے
وہ آئندہ اس غلطی سے نکل جائیں
اور جاہلیت کی یہ رسم
ٹوٹ جائے لیکن اس دیلی
نہ رسم کا ٹوٹ نہ جب ہی ممکن
تاکہ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم
خود عملا اس کا نفاس کرے
صحیح بخاری کی شرح میں
حافظ حدیث علامہ ابن حجر
نے اس واقعے کو نقل کیا ہے
اور اس کی سند بیان کی ہے
حضرت صفیہ بنت ہوئی
رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت حارون علیہ السلام
کی اولاد سے ہیں یہ صرف ان کی
خصوصیت تھی کہ ایک نبی کی
صاحبزادی اور ایک نبی کی زوجہ تھی
پہلے کنانہ ابن الحقیق
کے نکاح میں تھی ان کے قتل
کے بعد آپ کے نکاح میں آئیں
حضرت جویریہ بنت حارس
یہ خزائیہ
بن المسلق کے سردار حارس کی بیٹھی ہیں
جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں
تھی پھر آپ کے نکاح میں آئیں
اور اس کی بدولت تمام قبیلہ
آپ کا آزاد ہو گیا اور ان کے
باپ مسلمان ہو گئے
حضرت میمونہ
بنت حارس حلالیہ رضی اللہ تعالی عنہ
یہ اول
مسعود ابن عمر کے نکاح میں تھی
اس نے طلاق دے دی
تو ابو رحم سے نکاح ہو گیا
ان کی وفات کے بعد
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں
یہ آپ کی آخری
زوجہ میں سے ہیں
Show more
Artist

V.A68655 followers
Follow
Popular songs by V.A

Mashup 3 In 1 - Để Anh Lương Thiện, Anh Thôi Nhân Nhượng, Đừng Hỏi Em Ổn Không (Huy PT Remix)

06:42

Uploaded byUNIVERSAL MUSIC GROUP