بڑا پردرد ہے قصہ یہ عبرت کی نشانی ہے
بڑا پردرد ہے قصہ یہ عبرت کی نشانی ہے
سنو بغار لوگو ایک فوجی کی کہانی ہے
بڑا پردرد ہے قصہ یہ عبرت کی نشانی ہے
سنو بغار لوگو ایک فوجی کی کہانی ہے
یہ قصہ آگرا کا ہے یہاں بول فامو رہتے تھے
گزارا فیض وہ اپنا بڑی مشکل سے کرتے تھے
کیا کرتے وہ مزدوری اسی سے گھر چلاتے تھے
تھا ان کا ایک بیٹا اس کو محنت سے پڑھاتے تھے
تھا اس کا نام کمردبی بڑی محنت سے پڑھتا تھا
سب ہی کا لادلا تھا وہ عدو سب کا ہی کرتا تھا
کیا جب پاس انٹر تو ہوا وہ فوج میں بھرتی
کہ گھر میں آئی خوشحالی یہ تھی اللہ کی مرضی
بنایا تین منزل گھر بڑا سا گیٹ لگوایا
بلا کر ایک پتایا گھر میں رنگ روگن بھی کروایا
خریدیں گھر کی سب چیزیں خریدیں ایک سکوٹی
بدل ڈالیں سب ہی چیزیں پڑی تھیں گھر میں جو ٹوٹیں
برادر بالوں میں اب ہو گئی ان کی بھی عزت تھی
غریبی ہٹ گئی تھی ان کے گھر بھی آئی دولت تھی
پہن کے وردی کمردین جو گھر اپنے آتا تھا
تو سینہ گرم سے ماں باپ کا بھی چوڑا ہوتا تھا
دمنا تھی یہی ماں باپ کا ایک لڑکی مل جائے
کر بیٹے کی وہ شادی کلی اس دل کی کھل جائے
انعیت ہو گئی رب کی ملی منچا ہی لڑکی تھی
بڑی ہی خوبصورت تھی بڑے ہی اونچے گھر کی تھی
ہوئی فوجی کی جو شادی تو دلہن گھر میں آئی تھی
ہوئے ارمان تھے پورے خوشی اب دل نے پائی تھی
محبت فوجی اپنی بیوی سے بے حد ہی کرتا تھا
وہ جو بھی مانگتی سامان وہ اس کو دلاتا تھا
شکایت تھی نہیں کوئی وہ دونوں جان لٹاتے تھے
محبت سے وہ دونوں زندگی کے دن بتاتے تھے
ہوئی جب ختم چھٹی تو چلا واپس وہ ڈیوٹی پر
ہوئی حلکان تھی بیوی بہت ہی اس کی رو رو کر
کہا بی بی نے کیسے زندگی تنہا بٹاؤں گی
جدائی کا تمہاری کس طرح صدمہ اٹھاؤں گی
دلاتا دے کے فوجی نے کہا تھا اپنی بی بی سے
میں جلدی لوٹ کے آؤں گا جانم اپنی ڈیوٹی سے
گیا فوجی جو ڈیوٹی پر تو بی بی رہ گئی روتی
بڑی بے چین وہ رہتی نہیں راتوں کو تھی سوتی
سیاچن کی پہاڑی پر لگی فوجی کی ڈیوٹی تھی
جہاں تھا ڈھنڈ کا موسم جہاں پر برپ گرتی تھی
ادھر بھارت کا بوڈر تھا ادھر تھا پاک کا بوڈر
وہاں تینات تھے فوجی وہاں پر سخت تھے آڈر
بدلتی جب چھنوئی تو وہ گھر پہ فون کرتا تھا
نہ کرتا بات بی بی سے تو اس کا من نہ لگتا تھا
یہی حالت تھی بی بی کی وہ ملنے کو تڑپتی تھی
بدن میں آگ سی ہر پل ہی چاہت کی تو لگتی تھی
رچا کر ہاتھوں میں مہندی وہ رستہ تکتی رہتی تھی
کہ گھر کو جلد آجاؤ وہ اس سے کہتی رہتی تھی
جو گزرے چھ مہینے تو ہوئی منظور تھی چھٹی
خوشی کا نہ ٹکانا تھا بہت خوش ہو گئی بی بی
بتایا فون پر اس نے میں کل گھر آنے والا ہوں
تمہارے واستے توفے کئی میں لانے والا ہوں
سنا بی بی نے تو دل میں نہیں پھولی سمائی دی
وہ جاگی رات بھر اس کو نہیں اب نیند آئی تھی
سجی دلوہن کے جیسی کر لیا سنگار تھا اس نے
بہت دن سے نہ شوہر کا کیا دیدار تھا اس نے
کبھی چھت پر وہ چڑھتی تھی کبھی وہ راہ تکتی تھی
گھڑی اک کاتنا اس کو صدی کے جیسی لگتی تھی
ہوئی جب شام تو بے چینی میں اس کو قرار آیا
کہ جب پہنے ہوئے وردی اسے شوہر نظر آیا
لگی شوہر کے سینے سے تو آئے آنکھ میں آنسو
سما لے فوجی نے بی بی کے تھے بکھرے ہوئے گیسو
کہا بی بی نے رو کر کے نہیں تم چھوڑ کر جانا
بڑا مشکل تمہارے بین میرا دنیا میں جی پانا
راہ فوجی تھا پندرے دن وہاں پر پاس بی بی کے
ہوئے دن ختم چھٹی کے چلا وہ اپنی ڈوٹی پر
بڑی بے چین تھی بی بی سکو اس کو نہ ملتا تھا
وہ کیسے روکتی اس کو نہ کوئی زور چلتا تھا
گیا جب چھوڑ کر فوجی اکیلے میں وہ روئی تھی
بچھڑ کے اپنے شوہر سے کئی راتیں نہ سوئی تھی
گئے شوہر کو ڈوٹی پر کئی اب مہ گزرے تھے
سب ہی ارمان اس کے ڈوٹ کر کے اب تو بکھرے تھے
ہوا ایک روز ایسا گھر کے اے سی میں کمی آئی
کیا تھا فون فوجی کو سب ہی تھی بات بتلائی
جو اے سی کا مکینک تھا اسے تھا جانتا فوجی
کیا تھا فون فوجی نے چل جاؤ زرہ جلدی
ہمارے گھر کے اے سی میں سنو آئی خرابی ہے
پریشان بیوی گرمی سے ہے وہ گھر پہ اکیلی ہے
بنے جو بھی تمہارا پیسہ وہ گھر سے ہی لے لینا
مگر اے سی ہمارا اچھے سے تمہیں ٹھیک کر دینا
مکینک گھر پہ پہنچا تو ملی فوجی کی بیوی تھی
نہ تھا گھر میں کوئی اس کے وہ تھی تنہا اکیلی تھی
مکینک نے جو جا کے دیکھی وہ فوجی کی بیوی تھی
ہوا اس کا وہ دیوانا نظر اس کی تو اس لی تھی
وہ اس فوجی کی بیوی کو فسانا چاہتا تھا وہ
گلے سے آج وہ اس کو لگانا چاہتا تھا وہ
لگا اے سی جہاں پر تھا وہاں پر تھا پڑا سوفا
وہ میتھی میتھی باتے کر کے اس کے پاس آ بیٹھا
مکینک کی نظر جیسے ہی اس عورت سے ٹکرائی
سب ہی تھی بندشیں ٹوٹیں جوانی نے لی انگڑائی
ہوئے مدحوش تھے دونوں برائی پر اتر آئے
راہ کچھ بھی نہیں باقی بدن دونوں کے ٹکرائے
تسلی مل گئی عورت کو وہ بے حد ہی پیاسی تھی
میسر ہو گئی خوشیاں مٹی اس کی اداسی تھی
مکینک اب تو اکثر اس کے گھر پہ آتا رہتا تھا
جو تھے ارمان عورت کے وہ پورے کرتا رہتا تھا
اٹھانے لگ گئے اونگلی جو اب پروار والے تھے
محلے والوں میں چلنے لگے ان کے فسانے تھے
مکینک اب تو اس عورت کو لے کر بھاگ جاتا ہے
مکینک اب تو اس عورت کو لے کر بھاگ جاتا ہے
مکینک اب تو اس عورت کو لے کر بھاگ جاتا ہے
اسے رکھتا ہے ہوٹل میں مزہ بھر پور لیتا ہے
اسے رکھتا ہے ہوٹل میں مزہ بھر پور لیتا ہے
جو اس ہوتل کا خرچہ تھا سب ہی عورت اُٹھاتی تھی
وہ سب بیسے تھے فوجی کے جو رنگ رلیاں مناتی تھی
ہوئے جب ختم پیسے تو مکینک چھوڑ کر بھاگا
کہیں کی نارہی تھی وہ نبھایا اس نے ناوادا
نکل کر اب تو ہوتل سے سڑک پر وہ بھٹکتی تھی
وہ اپنے پیٹ کی خاطر تھی کُڑا بینتی پھرتی
اودھر فوجی نے جو بائی خبر تو گھر پہ آیا تھا
بہت غصے میں تھا بیوی کو جو گھر پر نا پایا تھا
وہ اس کو ڈھونڈنے نکلا سبی سے پوچھتا پھرتا
بہت ڈھونڈا تھا فوجی نے پتا چلتا نہ تھا اس کا
جو رشتے دار تھے ان کے یہاں بھی اس نے ڈھونڈا تھا
بہت سے لوگوں سے بھی فون کر کے اس نے پوچھا تھا
بہت کی کوششیں فوجی نے نہ کوئی خبر پائی
تو ایک دن بینتی کُڑا اسے بیوی نظر آئی
گیا وہ پاس بیوی کے چھپاتی اپنی صورت تھی
پھٹے کپڑے بدن پرتے بوری سی اس کی حالت تھی
جو اس نے دیکھا فوجی کو تو گر کے قدموں پہ گولی
میں ہوں مجرم تمہاری مار دیجے مجھ کو تم گولی
کسی کی باتوں میں آ کر تمہارے گھر کو چھوڑا ہے
بڑی مکاری ہوں میں تل تمہارا میں نے توڑا ہے
پڑی قدموں میں رو رو کر کے وہ
آنسو بہاتی تھی
ندامت تھی بہت فوجی سے نہ نظریں ملاتی تھی
جو دل میں فوجی کے غصہ تھا سارا ہو گیا ٹھنڈا
اٹھایا بیوی کو قدموں سے اس نے اور یہ بولا
گناہ تم نے کیا تھا جو سزا اس کی پائی ہے
تب ہی رب نے تمہاری کیا سے کیا حالت بنائی ہے
کمی کچھ رہ گئی ہوگی محبت میں ہماری
جو تم نے اس طرح ہٹو کر ہمارے گھر کو ماری تھی
کہا بی بی نے اپنی حرکتوں پہ میں ہوں شرمندہ
میں مرنا چاہتی ہوں اب نہیں رہنا مجھے زندہ
کیا میں نے گناہ ہے جو نہ اس کی کوئی ہے معافی
کیا میں نے گناہ ہے جو نہ اس کی ہے کوئی معافی
تمہاری دیکھ لی
صورت یہی میرے لیے کافی
کہا فوجی نے ہے تم میں ذرا سی بھی سمجھداری
کرو توبہ ابھی سے چھوڑ دینا ساری مکاری
ہوئی دنیا میں بدنامی مگر اپناوں گا تم کو
جہاں سے دور اپنے ساتھ لے کے جاؤں گا تم کو
کہا تھا رو کے بی بی نے اگر دو گے مجھے موقع
قسم خاتی ہوں اللہ کی نہیں دوں گی کبھی دھوکا
اٹھا کر غم زمانے کے سجن اندر سے ٹوٹی ہوں
کھلا لیجے مجھے کھانا کئی دن کی میں بھوکی ہوں
اسے پھر لے گیا فوجی نئے کپڑے دلائے تے
جو اس کے دل کو بھاتے تھے سبھی کھانے کھلائے تے
نماز روج پڑھتی اب وہ خدا کی بندگی کرتی
وہ راہ حق پہ چل کر کے بصر اب زندگی کرتی
گیے اللہ نے پھر بچے کھلا تھا اس کا تو بلشن
خدا کی رحمتوں سے اب مہکتا اس کا گھر آنگن
برائی پر جو چلتا ہے صدہ برباد ہوتا ہے
خدا کی بندگی سے فیض گھر آباد ہوتا ہے
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật
Đang Cập Nhật