Nhạc sĩ: peer ajmal raza qadri
Lời đăng bởi: 86_15635588878_1671185229650
عزم کے آت میں تلوار تھی
گھر سے نکلے کہنے لگے آج میں
اس محمد کا خاتمہ کر دوں گا
ماذا اللہ
اس نے گھر گھر فساد پیدا کر دیا
تلوار لے کے
ابو جان نے نا غصہ دلایا
کہنے لگا مکہ میں کوئی شورمہ نہیں بچا جو مصطفیٰ کو قتل کر دے
ماذا اللہ
سو سن خوٹ ملیں گے
جناب عمر کہتے ہیں تلوار پکڑی
اور یہ صویر کی بات ہے
ابھی رات کو نبی پاکہ
میں کا غلا پکڑ کے کہہ رہے تھے
یا اللہ اسلام کو عزت دے دے
عمر کو کلمے کی توفیق دے دے
رات
حضرت عمر کہتے ہیں دن چڑھا تو تلوار لے کے نا میں
باہر نکلا
میں نے کہا آج میں چھوڑوں گا نہیں
ہر گھر میں فساد
محضر اللہ ہر گھر میں لڑائی
فرماتے ہیں رستے میں حضرت عرقم بن زید
مل گئے
کہنے لگے کہ کدھر جا رہا ہے
میں نے کہا آج میں مصطفیٰ کو قتل کروں گا
کہنے لگے جا پہلے اپنے گھر کی خبر لے
پہلے اپنے
اپنے گھر کی پہلے خبر لے
کہنے لگا میرے گھر کو کیا ہوا
کہنے لگے تیری بہن فاطمہ بن تخطاب
اور تیرا بہنوی سعید بن زید
دونوں کلمہ پڑھ چکے
جا پہلے اپنے گھر کی خبر لے
حضرت عمر فرماتے ہیں
میں گیا
بڑا غصہ آیا کہ میرے گھر میں آگ لگ گئی
میں سردار مکہ کا
اتنا سخت گیر آدمی
میرے گھر میں اسلام آگئے
فرماتے ہیں میں نے جا کے نا
دروازے پہ پہنچا
تو میں نے سنا اندر سے آواز آ رہی ہے
قرآن پڑھنے کی آواز آ رہی ہے
قرآن پڑھنے کی
فرماتے ہیں میں نے دروازے پہ دستک لی
اندر سے آواز آئی
کون ہے دروازے پہ
میں نے کہا ہوں میرے اپنے خطاب
فرماتے ہیں کہ میرے بہنوی
نے کہا کہ فاطمہ تیرا بھائی بڑا سخت ہے
فرماتے ہیں میری بہن نے
جلدی سے قرآن کے صفحے لپیٹ کے اوپر
رکھ دیئے میرے بھائی جو تھے
وہ ایک میرے بہنوی
دروازے کے پیچھے چھپ گئے
فرماتے ہیں میری بہن
سامنے کھڑی ہے پیار بھی بڑا تھا
میں نے جاتے ہی کہا کیا کر رہی تھی
توجہ یہاں کی
غلامان محمد جان
دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے
کچھ پرواہ نہیں کرتے
ہوں گے لگے کیا کر رہی تھی
حضرت فاطمہ خموش ہے
حضرت عمر کہتا ہے میں نے ڈان کے
بولتی کیوں نہیں کیا کر رہی تھی
میں نے کہا قرآن پڑھ رہی تھی
قرآن پڑھ رہی تھی
کہا تجھے پتہ نہیں
تجھے میرا پتہ نہیں فرمایا سارا ہی پتہ ہے
کہا تجھے جانتی نہیں
ناتو منات کو برا کہتے ہیں
فرمایا وہ بعد کی باتیں تھی
وہ جاننے نہ جاننے کی باتیں
دوستو توجہ
حضرت عمر ابن خطاب فرماتے ہیں
کہ بہن اس جلال
اس روب اس اعتماد سے بولتی تھی
کہ میں نے تھپڑ مارا بہن کے موں پہ
میری بہن ادھر جا کے گری
فرماتے ہیں کپڑے چھاڑ کے
کھڑی ہوئی کہنے لگی عمر
ایک تھپڑ نہیں تو ایک ہزار مار
تو ایک ہزار مار
لیکن جی امید نہ رکھنا
کہ میں قرآن چھوڑ جاؤں گی
یہ امید نہ رکھنا میں قرآن چھوڑ جاؤں گی
فرماتے ہیں کہ میں نے
میرے ہاتھ میں تلوار تھی
میں نے دستے کی طرف سے
بڑی عزت کرتا تھا میرا بینوئی پردے سے
نکلا بیوی کو بچانے
میں نے زور زور سے دو
تلوار کی پشتے اس کے سر پہ بھی ماری
اون نکلا پھر میری بہن آگے ہوئی
پھر مارا
فرماتے ہیں جب خون نکلا نا بہن کا
تو میری بہن نے اپنا خون اپنے ہاتھ پہ
لگا کے کہا عمر
جس ماں باپ کا خون تیری رگوں میں ہے
اس کا میری رگوں میں بھی ہے
اسی کا خون ہے میری رگوں میں بھی ہے
فرمایا عمر
جس باپ کی پشت سے
تو ہے میں بھی
اسی باپ کی پشت سے ہوں
جس ماں کی چھاتیوں سے
دودھ تو نے پیا ہے میں نے بھی
اسی ماں کی چھاتیوں سے دودھ
توجہ جائے آپ کی
میری بات سمجھ میں آ رہی ہے
سنیں بات رسول اکرم
صل اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا عمر حضرت عمر
رضی اللہ تعالیٰ نے فرماتے ہیں
نبی پاک پہ نازل قرآن سنا
تو جب میری بہن نے
اسے جلال کے ساتھ بات کینا
کہ عمر
میں بھی اسی باپ کی بیٹی ہوں
میں بھی اسی باپ کی بیٹی ہوں
میں بھی اسی کبیلے کی ہوں
خبردار
تو ترشروح ہو کے گالی ہزار دے
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
فرمایا تو چانہ کر
ٹیل لگا
لیکن تو مجھے اسلام سے ہٹا سکتا
حضرت عمر فرماتے ہیں
بہن کا جلال دیکھا تو میں ٹھنڈا ہو گیا
بہن کا جلال دیکھا تو میں
میں نے کہا اچھا مجھے دکھاؤ
کیا پڑھ رہی تھی
مجھے دکھاؤ ذرا
کیا پڑھ رہی تھی
فرماتے ہیں میری بہن کہنے لگی
تو کافر ہے
جا پہلے وضو کر کے آ
جا گسل کر کے آ
جا پہلے نئے کپڑے
دھولے ہوئے پہن کے آ
پہلے تیار ہو کے آ
حضرت عمر فرماتے ہیں میں تیار ہو کے آیا
میری بہن نے جھولی میں صفے رکھے
قرآن پڑھے بہن
سنیں بھائی اللہ تقدیر بدل دیتا ہے
قرآن پڑھے بہن اور سنیں بھائی
قرآن پڑھے بھائی
اور سنیں بہن
اللہ تقدیر
لیکن آج بہن بھائی
قرآن تو سنتے سناتے ہی نہیں نا
یہ تو رواج ختم ہو گیا
جو کل لڑتی تھی
ننگی ہمشیروں کے ساتھ
وہ آج سینما دیکھنے جاتی ہے
اپنی ہمشیروں کے ساتھ
ماذا اللہ لاعوذ باللہ استغفراللہ
ہمارا وہ حال نہیں رہا جو تھا
حضرت عمر فرماتے ہیں
بہن نے قرآن پڑھا
میں نے قرآن سنا
پتہ نہیں قرآن میں کیا لذت تھی
میں رو رو کے بیال ہو گیا
فرماتے ہیں میرے جیسا سخت آدمی
میرے جیسا سخت جو کبھی نہیں رویا تھا
آج قرآن سنا
جب
قرآن
اللہ کا قرآن پڑھا جاتا ہے جو رسول پہ آیا
تو لوگوں کی آنکھوں کو تم دیکھو گے
ان کی آنکھوں میں آسف ہوتے ہیں
فرمایا میں رو رو کے بیال ہو گیا
میری بہن کیا دلہ کی
بھائی کیا پروگرام ہے
میں نے کہا مجھے بھی لے چلو
مجھے بھی لے چلو
کہا چلو فرمانے لگے
میرے نا ہاتھ باندھو
رسیوں کے ساتھ نا میرے
ہاتھ پیچھے میرے ہاتھ باندھ لو
گلے میں میری پنوار لٹکا لو
میں مارنے آیا تھا
میں مجرم بن کے جانا چاہتا ہوں
مجرم بن کے
اور ہمارے شاید فرمایا کرتے تھے
حضرت عمر فرمانے لگے
مجھے مارتے مارتے لے کے جاؤ
میں چونکہ مارنے آیا تھا نا
اور ایک پنجابی کا شاہر کہتا ہے
حضرت عمر نے کہا کروں آیا سا
مار مقامنے نوں
کروں آیا سا
مار مقامنے نوں
انہوں مینوں مارتے مارتے لے چلو
متے عمر دی عمر برباد ہوئے
جتھے عمر سوارتے لے چلو
کروں آیا سا
مار مقامنے نوں
انہوں مینوں مارتے
مارتے لے چلو
متے عمر دی
عمر برباد ہوئے
جتھے عمر سوار دے
مت عمر دی
عمر برباد ہوئے
جتھے عمر سوار دے
فرماتے ہیں جب پہنچے نا
دارِ ارکم میں تو دروازے پہ حضرتِ امیرِ حمزہ کھڑے تھے
حضرتِ امیرِ حمزہ
ایک شخص کہنے لگا حضرتِ امیرِ حمزہ سے عمر آ رہا ہے
فرمایا آنے دو
کہا حضور بہت تلوار بھی گلے میں لٹک رہی ہے
فرمایا آنے دو
وہ اگر عمر ہے تو میں بھی امیر حمزہ ہوں
وہ اگر عمر ہے تو
انا شہد اللہ ورسول ہی
میں انا رسول کا شہر وانے دو
کہا آپ کیا کریں گے
قادم ملہوز رکھے گا تو خاطر سے بٹھائیں گے
نمونہ اس کو ہم خلقِ محمد کا دکھائیں گے
اگر نیت نہیں اچھی
تو میں اس کو قتل کر دوں گا
اسی کی تیغ سے سر کٹ کے
چھاتی پہ دار دوں گا
میں آنے دو
آنے دو عمر کو
حضرت عمر آئے
دروازے میں داخل ہوئے
صحابہ فرماتے ہیں کہ حضور نے شور سنا
فرمایا کون ہے دروازے پہ
فرمایا عمر
فرمایا حضور اٹھے تیزی سے
چادر گھر گئی
چادر حضور تیزی سے اٹھے
کھول دو درواز
حضور عمر کے گلے میں تنوار ہے
فرمایا پھٹک کھول دو
یا رسول اللہ عمر
آپ کا دشمن
فرمایا کھول دو دروازہ
کہ یا رسول اللہ خطاب کا بیٹا
فرمایا کھول دو دروازہ
یا رسول اللہ ابوجال کا رشت
فرمایا کھولا دروازہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہے
فرمایا وہ اپنے آپ نہیں آیا
میں نے رات اللہ سے دعا مانگی ہے
میں نے مانگ کے لیا ہے
میں نے مانگ کے لیا ہے
وہ اپنے آپ کھڑا آیا ہے
کھولا دروازہ آنے دو
حضرت عمر چھٹ سے دروازہ کھلا نا
جسول پاک صام میں کڑے ہو گئے
کیا منظر تھا
ابو بکر فرماتا ہے تمہیں کیا بتا ہے کیا منظر تھا
حضرت اے حرکم فرماتا ہے
نے تمہیں کیا بتائے کیا منظر تھا میرے حبیب کی گردن تنی ہوئی ہے آنکھوں میں آنسو
بھرے ہیں پر نیچے نہیں گرتے آنسو بھرے ہیں آنکھوں لیکن نیچے تبکتے نہیں میرے
سولے پاک آگے بڑھے عمر کی گردن جھکی ہوئی ہے عمر اوپر نہیں دیکھتے حضور آگے
بڑھے جا کے حضرت عمر کا کندہ زور سے ہرایا فرمایا کیا پروگرام ہے تیرا کیا
ارادہ ہے تیرا بول حضرت فاروقی آدم آنکھ یوں اٹھا کے جا کے سونیا بس اب کلمہ
پڑھنے کا ارادہ ہے سونیا کلمہ پڑھنے کا شہابہ فرماتے ہیں پتہ نہیں کیا ہوا
پتہ نہیں حضور کا اتنا جوش ہم نے کبھی نہیں دیکھا نبی پاک کو نعرہ لگاتے
ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا جب عمر نے کہا نا سونیا کلمہ پڑھنے آیا ہوں
فرماتے ہیں رسول پاک کے جو آنسو بندے ہوئے تھے نا وہ ٹپ سے نیچے گرے اور حضور
نے فرمایا اللہ اکبر اللہ اکبر فرماتے ہیں حضور نے جب اللہ اکبر
کہا تو سارے صحابہ بھی کہنے لگے اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر حضرت
عمر فاروق کا عدل اور حضرت فاروق آزم کا انصاف اس کو دنیا جانتی بھی
ہے مانتی بھی ہے حضرت فاروق آزم رضی اللہ تعالیٰ عنو
ہم
قاضیوں کا تقرر کرتے وقت سب سے زیادہ احتیاط کرتے تھے کہ بندہ کس
قسم کا ہے اس کا مزاج کیا ہے معاشرے میں اس کا وقار کیسا ہے اس حساب سے اس
کو تقرر کرتے تھے قاضی کے لیے اور کیا حال تھا حضرت زید بن ثابت رضی
اللہ تعالیٰ عنو کو آپ نے قاضی مقرر کیا پاک نے معذول کر دیا کیوں آپ
نے معذول کیا ہے حضرت عمر فاروق کہنے لگے اس کی وجہ ہے ایک دن ایک شخص
نے مقدمہ کیا حضرت عمر پر مقدمہ کر دیا تو فرماتے ہیں کہ میرے سامنے
میں دیکھ رہا تھا جب میں عدالت میں پہنچا تو زید بن ثابت نے میرا کھڑے
ہو کے استقبال کیا اور جب مدعی آیا ہے تو وہ بیٹھے رہے ہیں تو میں نے
کہا کہ جب آپ دونوں میں ملتے وقت انصاف نہیں کر رہے تو فیصلے میں کیسے
انصاف کریں گے آپ اس قابل نہیں کہ آپ کو قاضی بنایا جائے معذول کر دیا
رہے ہیں بیسیت ملزم آیا ہو اگر آپ نے میرا کھڑے ہو کے استقبال فرمایا
تو پھر مدعی کا تو زیادہ حق بنتا تھا اور ہم پر اتراغ ہے کافر کا وہ
کہتے ہیں تو مدن نہیں کر سکتے بولا آدمی ہے نا وہ دیکھتا ہے آج گل کے
مسلمانوں کو آج گل کے مسلمانوں کو دیکھ کے رائے قائم کرتا ہے ہم
اسے کہتے ہیں آہ آج گل کے مسلمان نہ دیکھ وہ جنہوں نے ڈریکٹ نبی پاک
کی نکاح سے فیض بایا تھا انہیں دیکھ ڈریکٹ جو رسول پاک کی نکاح
کے فیض یافتہ تھے وہ عدل و انسان سے بھر دی دنیا حضرت فاروقی
آزم حضرت عمر بن آس مصر کے گورنر تھے حضرت فاروقی آزم نے انہیں
متعین کیا تھا ان کے بیٹے کا مصر میں جگڑا ہو گیا کسی عام آدمی
کے ساتھ گورنر کے بیٹے کا اور گورنر کے بیٹے نے اس مصری کو
ایک عام آدمی کو درہ مارے
میں گورنر کا بیٹا ہوں مصری نے کیا کیا گوڑے میں بیٹھا سیدھے
مدینے آ گیا سیدھا مدینے حضرت فاروقی آزم کے در دولت پہ پشت سے
کپڑا اٹھایا پشت سے اس نے اپنے نشان دکھائے تو جناب عمر کی آنکھوں
میں غصو آ گئے ایک عام آدمی یہ جانتے کوئی نہیں تمہیں رو پڑے
اتنا ظلم اور میری سلطنت میں گوڑے برسے تیری پشت پہ فارن لے جا
جاؤ گلا کے لاؤ حضرت عمر بناز اپنے بیٹے سمیت آئے بری عدالت
ہے حضرت فاروقی آزم کے لفظ فرمایا اس کو اس کی ماں نے آزاد پیدا
کیا تھا تُو نے اسے کیوں غلام بنایا ہے اس کی ماں نے آزاد جنا
تھا تُو نے کب سے لوگوں کو غلام کا بیٹے یہ کیا کہتا تھا یہ
کہتا تھا میں گورنر کا بیٹھا ہوں تُو یہ جانتا نہیں فرمایا اب یہ
بری عدالت ہے کوڑا پکڑ اور اس گورنر کے بیٹے کی پشت پہ برسا اور
اسے کہتا تو گورنر کا بیٹا ہے میں محمد کا غلام ہوں سندھ اللہ
تعالیٰ علیہ السلام اسے بتا اسے اب بتلا کہ تو گورنر کا بیٹا ہے
نا میں نبی پاک کا غلام ہوں اور جو مصطفیٰ کے غلام ہوتے ہیں وہ
سارے برابر ہوا کرتے ہیں حضرت فاروقی آزم کا عدل جناب فاروقی
آزم کا انصاف جناب فاروقی آزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روحوں کا
انچی آیا نا حضرت عمر فاروق کے پاس تو وہ کہتا ہے پیغام لے
کیا
اپنے بادشاہ کا اور میں صفیر تھا میں بڑے ملکوں میں گیا بڑے
بادشاہ دیکھے بڑے امیر دیکھے حضرت فاروقی آزم رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے دربار مجھے بھیجا گیا جب پہنچا تو میں نے
مسلمانوں سے کہا تمہارے بادشاہ کا دربار کا ہوئے انہوں نے
کہا نہ ہمارا بادشاہ ہے نہ کوئی دربار ہے نہ بادشاہ ہے نہ
کوئی اچھا تو پھر وہ کدھر بائفتے ہیں کہا یا مسجد میں ملیں
گے یا اپنے جوپڑے میں ملیں گے تو کہا تمہارا بادشاہ بھی کوئی
نہیں کہا بادشاہ نہیں ہم مومن ہیں ہمارا ایک امیر ہے جس سے
امیر المومنین کہا جاتا ہے وہ شخص کہتا ہے میں مسجد گیا میں نے
کہا عمر کدھر ہیں انہوں نے کہا جی ابھی نکنے دے ادھر ادھر ہی
ہوں گے میں نے کہا یہ کیسا بادشاہ ہے کوئی کہتا ہے ادھر ہوں
گے کوئی کہتا ہے ادھر ہوں گے یہاں تو صبحی وزیف صاحب سڑک سے
گزرے تو سارے روڈ تین تین گھنٹے بلاگ رہتے ہیں اور یہ کیا
چکر ہے کہ لاکھوں مربع میل کا حکمران کوئی کہتا ہے اس قلی میں
گیا ہے کوئی کہتا ہے اس قلی میں گیا ہے یہ کیسا بادشاہ ہے
کہتا ہے عمر انہوں نے کہا یہی تھا دوسرے سے پوچھتا جو وہ باد
کی طرف گئے باغ میں گئے تو وہ ایلچی کہتا ہے میں نے باغ والے سے
پوچھا کہ یہاں تمہارا امیر کدھر ہے انہوں نے کہا وہ درخت دیکھ
رہے ہو کہ حضرت دیکھ رہا ہو اس درخت کے نیچے وہ ایک شخص جو
سویا ہوئے ہیں نا مٹی کا ڈیلہ سرانہ بنا کے وہ درخت کے نیچے
مٹی کے ڈیلے کا سرانہ بنا کے جو بندہ سویا ہے وہی ہمارا امیر ہے
وہ سامنے حضرت سیدنا عمر فاروق کے پاس وہ بندہ جا کے کڑا ہو
گیا ہے وہ کہتا ہے کہ پسینہ گر گر کے نا مٹی کے ڈیلے پہ گارہ
بنا رہا تھا پسینہ گر گر کے مٹی کا ڈیلہ
وہ تر تھا حضرت فاروق کے آدمی سو رہے تھے کہنے لگا میں بیسیوں
اور درجلوں بادشاہوں کو دیکھ چکا تھا جن کی آکے دس گھر حضرت عمر کی
آنکھ کھلی تامت سمیٹی اٹھ کے بیٹھ گئے کدھر آیا ہے کہنے لگا حضرت
جی آیا تو کسی اور کام تھا آیا تو کسی لیکن اب کام کوئی اور بن گیا
ہے ہم نے کہا میں اب کیا کام بنا ہے کہنے لگا میرا کام یہ بنا ہے
کہ میرا بھی دل کی ہے میں بھی کلمہ پڑھو اور نبی پاک کا غلام
بن جائے اور یہ کام بن گیا ہے اور ساتھیوں بس مدینہ میں وہ دن
بڑا عجیب تھا جب سیدنا فاروق کے آدم کے بیٹھے کا معاملہ آ گیا آج
ساٹھ سال کا بڑا عمر ابو شام حضرت عمر کے سابزادے یہودیوں نے
سادش کر کے انہیں نبیز پلا دی نبیز جائز تھی نبیز کہہ کر شراب
پلا دی پھر مقدمہ قائم ہوا کہ اب پتہ چلتا ہے عمر
کتنا عدل کرتا ہے سیدنا فاروق کے آدم کے پاس گواہ آئے
سابزادہ اندر کھانا کھا رہا تھا فاروق کے آدم نے گرے بان سے
پکڑا کھینچ کے لائے فرمائے ابو شامہ چل تنہیں شراب پی ہے
تجھے کوڑے مارے جائیں گے تیرے لیے سو یاسی کوڑوں کی سزا
تیاری کر لے ابو شامہ کہتے ہیں کہ ابا جی انہوں نے نبیز دے
تھی شراب پلا دی فرمائے تنہیں پی کیوں تنہیں پی کیوں
برے بزم میں بار سین مسجد نبوی کا فاروق کے آدم
اولاد تو بزدل کر دیتی ہے نا بندے کو اولاد تو کمزون کر دیتی
ہے آج مدینہ نے عجیب معجلہ دیکھا حضرت فاروق کے آدم کی
زوجہ روتی ہوئی آئی کہنے لگی حضرت جی میرا لخت جگر ہے
ایک ایک کوڑے کے بدلے پیدل آج کروں گی ایک ایک کوڑے کے بدلے
صدقہ اور خیرات کروں گی میرا بیٹا گلتی کر ویٹھا ہے یہ کام
نہ کریں آپ نے فرمایا تو مجھے کہتی
ہے میں یہ کام نہ کروں تیرے ہاتھ اور تیرے کوڑے کیا کرتے
تیرے ہاتھ اور صدقے کیا کرتے ہیں کوڑے لگانا میرے مصطفیٰ
کی شریعت کا قانون ہے تو بیٹے کی بات کرتی ہے عمر کا اپنا
معاملہ بھی ہوتا تو عمر یہی سلوک کرتا لوگوں نے کہا
حضرت جی آپ تھوڑی تھوڑی دیر ابھی کی والدہ پریشان ہے گھر میں