ĐĂNG NHẬP BẰNG MÃ QR Sử dụng ứng dụng NCT để quét mã QR Hướng dẫn quét mã
HOẶC Đăng nhập bằng mật khẩu
Vui lòng chọn “Xác nhận” trên ứng dụng NCT của bạn để hoàn thành việc đăng nhập
  • 1. Mở ứng dụng NCT
  • 2. Đăng nhập tài khoản NCT
  • 3. Chọn biểu tượng mã QR ở phía trên góc phải
  • 4. Tiến hành quét mã QR
Tiếp tục đăng nhập bằng mã QR
*Bạn đang ở web phiên bản desktop. Quay lại phiên bản dành cho mobilex
Sorry, this content is currently not available in your country due to its copyright restriction.
You can choose other content. Thanks for your understanding.
Vui lòng đăng nhập trước khi thêm vào playlist!
Thêm bài hát vào playlist thành công

Thêm bài hát này vào danh sách Playlist

Bài hát imam hussain ki shadat ka waqia. do ca sĩ Peer Ajmal Raza Qadri thuộc thể loại Au My Khac. Tìm loi bai hat imam hussain ki shadat ka waqia. - Peer Ajmal Raza Qadri ngay trên Nhaccuatui. Nghe bài hát Imam Hussain Ki Shadat Ka Waqia. chất lượng cao 320 kbps lossless miễn phí.
Ca khúc Imam Hussain Ki Shadat Ka Waqia. do ca sĩ peer ajmal raza qadri thể hiện, thuộc thể loại Âu Mỹ khác. Các bạn có thể nghe, download (tải nhạc) bài hát imam hussain ki shadat ka waqia. mp3, playlist/album, MV/Video imam hussain ki shadat ka waqia. miễn phí tại NhacCuaTui.com.

Lời bài hát: Imam Hussain Ki Shadat Ka Waqia.

Nhạc sĩ: peer ajmal raza qadri

Lời đăng bởi: 86_15635588878_1671185229650

حضرت امام حسین تشریف لائے بچوں سمیت آئے
غور بن یزید ایک شخص تھا غور بن یزید
غور بن یزید نام یاد رکھو
غور بن یزید ایک مختصر سا لشکر لے کے
اس نے امام حسین کو ایک جگہ پر روکا
پھر دوسری جگہ پر روکا
بل آخر تیسری جگہ پر روکا
تو امام حسین نے فرمایا جگہ کون سی ہے
کہ حضورصلى الله عليه وسلم کا رب و بلاء
فرمایا بس یہی خیمے لگا دو
یہی
حضرت سیدہ زینب نے پوچھا امام حسین سے
کہ سارے زمانے نے روکا ہے
ٹھیک ہے آپ حق پہ ہیں
یہ بھی سب نے کہا آپ حق پہ ہیں
پر روکا بھی سب نے
آپ روکے کیوں نہیں
تو ابن کسیر اور ابن اسیر لکھتے ہیں
کہ امام حسین رو پڑے
کہنے لگے بہن میں روک جاتا
پر میں نے رات کو نانا مصطفیٰ کو خواب میں دیکھا ہے
تو حضورصلى الله عليه وسلم نے فرمایا حسین
اگر آج یہ رواج پڑ گیا نا
یزید جیسے لوگوں کا
تو قیامت تک پڑا رہے گا
پھر لوگ کہیں گے کوئی نکلا نہیں تھا
تو ہمیں بھی نکلنا
پھر لوگ ظالموں کے سامنے گردنے جھکانے
کے عادی ہو جائیں
میں کہتا رہتا ہوں کہہ رہا ہوں
کربلا کی جنگ کفر اسلام کی جنگ نہیں
کفر اسلام کی جنگ نہیں کربلا کی
کیونکہ یزید تو بڑا پکا
نمازی تھا خطبہ دیتا تھا وہ تو
جب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ
انہوں نے کربلا کے میدان میں جمعہ
کا دن تھا تو یزید کے سامنے
کو بات کرنی شروع کی عمر بن سعید
کے سامنے تو عمر بن سعید کہانے لگا
حسین زیادہ باتیں نہ کارا ہمارا جمعہ
لیٹ ہو رہا ہے جنگ کے لیے
تیار ہو فٹا فٹا
اہل بیت نبوت کو
قتل کریں گے اور قتل کے بعد پھر نماز
پڑیں گے اور پھر کہیں گے اللہم صلی
علی محمد وعلا
عالمہ اسی نماز میں پھر درود بھی
پڑے گا یہ کیسا مرتبہ ہے
کیسا انداز ہے دوستی
قاتل سے بھی مقتول سے یارانہ
بھی حرب بن یزید
امام حسین سے کہانے لگا مجھے حکم
ہے آپ کو روکنے کا آپ آگے
نہیں جا سکتے امام صاحب نے
فرمایا وجہ زمین اللہ کی ہے
اس نے کہا آپ بیعت نہیں کر رہے
یزید کی حالات آپ کے حق میں درست نہیں
ہیں آپ نہیں جائیں گے امام
روک گئے
زہر کی نماز کا وقت ہوا تو حضرت
علی اکبر امام حسین کے
بڑے سہبزادے انہوں نے
ازان زہر پڑھی تو حرب بن یزید
کے لشکر نے امام حسین کے پیچھے نماز
ادا کی
کہا بھئی تم مقابلے میں آئے ہو
نماز پیچھے پڑھتے ہو کہا حضور
مقابلہ تو تلواروں سے کر رہے ہیں
پر مارا دل تو مانتا ہے نا کہ مصطفیٰ
کا نمازہ بڑی شان والا ہے
حرب بن یزید نے تین
نمازیں لشکر سمیت امام حسین
کے پیچھے پڑھی ہیں تین نمازیں
زہر اصر اور مغرب
پھر امام حسین
کے سامنے شرائط پیش کی کہ آپ کو
یہاں گھیر لیا گیا ہے یہاں آپ بیعت
کریں گے یہاں آپ جنگ کریں گے دو ہی باتیں
امام حسین نے فرما ہے نہیں بھئی
بیعت تو میں نہیں کرتا اس کے علاوہ
تم جو کہتے ہو میں کرنے کو تیار ہوں
اس نے خط لکھا
عبیداللہ ابن زیاد
کو ایک بندہ دوڑایا پیچھے کوفے
چند میل پہ کوفہ تھا کہا وہ نہیں مان رہے کیا کرنا
تو حسین
ابن علی ہے میں زیادہ دیر انہیں روک
بھی نہیں سکتا
انہوں نے پیغام دیا حور بن یزید
کو کہ کرنا کچھ بھی نہیں ان کا پانی بند کر دو
بلیک میل کرو
کھانا پانی نہیں ملے گا چھوٹے چھوٹے بچے ہیں
خود ہی مان جائیں
حضرت
امام علی مقام کے بارے میں حور
کے پاس جب یہ پیغام آیا تو حور کہنے لگا
میری طبیعت نہیں مانتی حسین
پر پانی بند کرو
دل نہیں مانتا جب یہ لفظ کہے نا دوبارہ
تو پھر
عبیداللہ ابن زیاد نے
عمر بن سعد کو دس ہزار آدمی
دے کے بھیجا
حور بن یزید لچک دکھا رہا ہے حسین کے آنکھ میں
ایک رے کا علاقہ تھا
بڑی وہاں فصل ہوتی تھی
لوگ کوشش کرتے تھے
وہاں کا گورنر بننے کی
کوشش کرتے تھے تو عبیداللہ ابن زیاد
کہنے لگا تمہیں رے کی گورنری
ملے گی
سب سے سرسبد و شاداب علاقہ
تمہیں وہاں کا گورنر بنایا جائے گا
اگر حسین کے خلاف لڑو گے
یہ اتنی زبردست ہوتی ہیں گورنریوں
کہ گورنریوں کے لیے
لوگ نسل رسول کے خلاف بھی نکل آتے ہیں
یہ اتنی تگڑی ہوتی ہیں
اتنی جلدی وفاداریاں بدلتی ہیں
امام حسین کو روک لیا گیا
عمر بن سعد انہیں روک لیا
یکم محرم کو امام آئے
سات محرم تا روکا گیا
سات محرم کو پانی بند کر دیا
جانور پانی پیتے تھے
گھوڑے پیتے تھے
کتے پیتے تھے
لیکن مصطفیٰ کے گھرانے کو پانی پینے کی اجازت
تین دن تک پانی بند رہا
نو محرم کو
عمر بن سعد نے اور لوگ بلائے
شمر ایک بڑا سخت آدمی تھا
سنگ دل بدبخت
جس نے حضرت علی عسکر کے گلے پر
تیر مارا تھا
وہ اور لشکر لے کے آیا
رات کو کہنے لگا
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
کہ بس بڑا ہو گیا
یہ نو دس محرم کی درمیانی رات
یہاں آپ جنگ کریں گے
یہاں آپ بیعت کریں گے دو ہی باتیں
امام حسین اندر گئے
سیدہ زینب سے مشورہ کیا
باہر آئے فرمایا بات وہی ہے
جو پہلے دن والی ہے
بچے ساتھ ہو سہرہ کا علاقہ ہو
تبتی مریت ہو
اتنے کٹھن اور سخت علاق
چاروں جانم موت ہی موت
دور دور تک
اپنوں کا نام و نشان کوئی نہیں
اور اکیلے فیصلہ کرنے والے
امام حسین باقی سارے بچے ہیں
یا عورتیں سارے
بڑے اکیلے
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ انہوں نے فرمایا
بیعت تو میں نہیں کرتا باقی جو تمہارا پروگرام ہے
شمر اور
ابن ساتھ کہنے لگے پھر جنگ کے لیے
تیار ہو جائیں کیا انداز ہے
امام حسین کا فرمانے لگے
کل جنگ کروں گا
مجھے پتہ تو ہے جنگ کا نتیجہ کیا نکلنا ہے
ایک رات مجھے دے دو
تاکہ میں کھل کے
اپنے رب کی عبادت تو کرلوں
حسین نے جانا ہے
مجھے پتہ ہے کل ریزرٹ بہتر
اور بائیس ہزار کا کیا موقع
ایک رات مجھے دو
میں مالک سے راز نیاز تو کروں
میں گویا اس سے پوچھوں تو سہی
کہ مالک
میرے والک بھی شہید ہیں بھائی بھی شہید ہیں
نانا کو بھی دکھوں میں دیکھا ہے
تو اب میری باری ہے تو مالک میں حضر ہوں
مجھے موقع تو دو
اس لیے کہ میرے نانا نے بدر میں بھی ساری رات عبادت کیتی
صبح مجھے موقع دو
اور دنیا کا اصول ہے
جب کوئی موقع مانگتا ہے تو دیا جاتا ہے
یہ دونوں کہنے لگے
کوئی موقع نہیں
حرب بن یزید پیچھے سے بولا
کہنے لگا نہیں
بتمیزی نہ کرو حسین کو موقع دو
تمہیں دینا پڑے گا
موقع دیا
حرب بن یزید نے پھر منت کی
کہ حضور آپ مربانی کرے مان جائیں
فرمایا ماننے والا کھاتا کوئی نہیں
فرمایا ماننے والا کھاتا
بولیے
ماننے والا کھاتا
یہ بڑا مشکل کام ہے بھائی
ضمیر کا سودا اب تو عام ہو گیا
بزار لگتے ہیں ریٹ لگتے ہیں
اپنی اپنی چاہتوں پہ لوگوں نے
اپنے اپنے انداز سجائے ہوئے ہیں
کوئی آدمی بس اچھے طریقے سے
نام لے لے تو بس ہم اس کے پیشہ چل جاتے ہیں
اب تو عام ہو گیا یہ معاملہ
امام حسین نے فرمایا
ہوئی نہیں سکتا ممکن ہی نہیں ہے
ساری رات عبادت میں گزری
ریاضت میں گزری
تحجت کا وقت ہوا تو گھر والوں کو بلایا
فرمایا دیکھنا
تمہاری سی کی آواز نہ باہر آئے
خبردار
سی کی آواز نہ آئے
اور امام زینب علیہ السلام سے فرمایا
تو بیمار ہے تو جہاد نہیں کرے گا
لیکن خیال رکھنا پیچھے
بڑی قیمتی بات بتا رہا ہوں
ہماری بیبیاں کسی کے گھر میت ہو جائے
تو چار دن بخار نہیں اترتا
امام علی مقام نے سجدہ زینب سے فرمایا
تو بڑی ہے میری بہن ہے
پیچھے سارے بچے ہیں جوان ہیں
ان کے حوصلے تیری ذمہ داری ہیں
صبح
جنگ کا تبل بجنے لگا
فجر کی نماز پڑی
سورت چڑا
دس محرم کا دن جمعہ کا
وقت
جناب سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی
انہوں نے ریت پر سجدے کیے
لمبے سجدے
لمبی نماز
سورت شمس کی آیات دوسری رکت میں پڑی
تو سارا کربلا گھنجنے لگا
کیا اندازت
تکلم تھا امام علی مقام کا
نماز مکمل ہوئی
تو حور بن یزید
عمر بن سعد اور شیمر سے کہنے لگے
واقعی حسین سے لڑو گے
پتہ نہیں کون ہے
تم نے نہیں پڑا
تمہاری آنکھیں بند ہیں
تمہیں نہیں پڑا
پھر نے لگا چھپ کر
حکومت نظر آ رہی ہے
حور بن یزید کہنے لگے پھر میرا بھی فیصلہ سنو
مجھے حکومت نہیں چاہیے
مجھے جنت چاہیے
حکومت نہیں چاہیے
امام حسین کی پہلی فتح دیکھیں
حور بن یزید ایڑی لگا کے نہ
یزید کے لشکر سے نکل کے
امام حسین کے لشکر میں شامل ہو گئے
اور پہلا شخص
جس نے امام حسین کو روکا
امام حسین کے نام پر پہلا فرد
اسی شخص نے کٹایا ہے
لیکن یزید کی قبر پہ لانت بھی
کوئی نہیں برساتا
اس کا محل تھا بہت بڑا
لیکن جب لوگ کربلا میں امام حسین
کو سلام کرنے جاتے ہیں تو قدموں میں
حور بن یزید کا مزار بھی بنا ہوا
اس کو بھی سلامی دی جاتی ہے
اور اب ہم اکیلا حور بن یزید
نہیں کہتے ہم کہتے ہیں حور بن یزید
رضی اللہ تعالی
اب ہم اتنی تعظیم کرتے ہیں
اس حور کی جنابے
امام حسین کو میدان میں
کھڑا کیا گیا
جہاد کا تبل بجا
پہلے خدام آئے اور سن لو
آج وہ پتہ نہیں
بزاری سے لوگ چڑھ گئے ہیں سٹیجوں پہ
بزاری سے نہ چرے پہ داڑی ہے
نہ سر پہ کوئی کپڑا ہے
بزاری لوگ ہیں بھاگ رہے ہیں
بادو چڑھائے ہوئے ہیں بٹن کھولے ہوئے ہیں
تماشا بنا دیا
سننے والوں کا بھی اللہ یافظ ہے
وہ سٹیج پہ اہلِ بیعت کی شان بیان کرتا ہے
بھاگ کے ادھر جاتا ہے یہ کوئی طریقہ ہے
سننے والوں کا بھی
عجیب انداز ہے
ہر بندے کو سننے بیٹھ جاتے ہیں
دین محضب ہے
تہجیب والا ہے
دلائل رکھتا ہے
دین وقار رکھتا ہے
ایسے لوگ اب دین بیان کریں گے
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ
نصوب جب جہاد کا وقت آیا
پتہ کون کون تھے کربلا میں
امام حسین کے ساتھ
امام حسین کے چار بھائی تھے کربلا میں
کتنے
بول کے بتائیں
حضرت علی کے چار بیٹے
عباس بن علی
جن کو حضرت عباس کہا جاتا ہے نا
علمدار یہ حضرت علی کی دوسری زوجہ میں سے
عباس بن علی بھی تھے
اور ابو بکر بن علی بھی تھے
عمر بن علی بھی تھے
عثمان بن
یہ حضرت علی کے بچوں کے نام ہیں
یہ آپ کے شہزادہ
امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے
ان کا نام صرف اس لیے نہیں لیا جاتا
کہ ان کا نام خلافہ سلاسہ کے نام پہ
حضرت علی نے اپنے یاروں کے نام پہ
رکھا ہے تو تم نے کربلا کے میدان سے
خارج کر دیا
یہ تینوں شہزادے
حضرت جناب سیدنا
امام حسین کے ساتھ تھے
یہ بھی شہید ہوئے
حضرت جناب زینب
امام حسین کی سگی بہن ہے
ان کے دو بچے تھے
اونو محمد
جب امام حسین میدان میں جانے لگے
تو جناب زینب بچوں سے کہنے لگی
نا پہلے بھائی نہیں جائے گا
پہلے بھانجے جائیں
دو بچے شہید ہوئے
حضرت قاسم بن حسین
امام حسین کے بیٹے تھے
وہ جب میدان میں جانے لگے
تو امام حسین نے کہا نہیں بھلٹو نہیں جائے گا
تو میرے بھائی کی نشانی ہے
میں جاؤں گا
تو حضرت قاسم بن حسن نے ایک تعویز کھول کے دیا
کہا ابا جی میرے والد نے کہا تھا
جب بڑی مشکل آ جائے تو تعویز کھول کے دیکھنا
تو آج بڑی مشکل آئی ہے
تو میں نے تعویز کھولا ہے
تو یہ دیکھیں کیا لکھا ہے
یہ تو رکا ہے تعویز ہے ہی نہیں
جب کھول کے دیکھا
تو اس پہ لکھا تھا
قاسم اگر حسین پہ کوئی کڑا وقت آ جائے
تو بیٹھا کے آگے آگے رہنا
اگر کڑا وقت میرے بھائی پہ کبھی آ جائے نہ
دیکھنا اس کے آگے آگے چلنا
اسے حسن کی کمی نہ محسوس ہو
پانیا جیہ ساکھ نہیں کوئی
جیہ بیچ خار نہ ہوئے
سیدنا امام حسین پہلی دفعہ کربلا میں
اس وقت روئے جب یہ رکا
آپ نے دیکھا
تو فرما ٹھیک ہے
اگر حسن کی یہ وسیعت ہے
تو میں نے زندگی میں
اگر ان کی ہر بات مانی ہے
اب بھی مانوں گا
تمہیں اجازت ہے
جناب قاسم بن حسن
سولہ سال کا جوان
جب میدان میں نکلے
تو ہائے ہائے پتہ نہیں
کہاں سے آگئی ہے
امام قاسم بن حسن
جب میدان میں نکلے
تو تبری سے لے کر
علامہ ابو لسنات صاحب
سب کو پڑھ کے تو دیکھو
تین دن کی پیاس ہے
شدید آزمائش ہے
دوکھ ہیں
تکلیفیں ہیں
پھر بھی پہلی دفعہ جب میدان میں گئے ہیں
واپس آئے ہیں
انیس لوگوں کو قتل کر کے واپس آئے ہیں
انیس لوگوں کو ایک بار میں
کھلت
ایسی تماشا بنا دیا ہے
مظلوم تھے
وہ تو رو رہے تھے
ہر مقرر یہ کہہ رہا ہے
کہ وہ تو بار بار کہا
ابا پانی مل جائے
پانی آ جائے
ترس گئے
خدا کا خوف کرو
یہ دلیر لوگ تھے
ان کی باتیں آج بھی پڑھ کے
دلیری پیدا ہوتی ہے
دلیری پیدا ہوتی ہے
دلیری
سناؤ قصہ خیبر کو
تمامی اپنے بچوں کو
علی کی داستان سن کے
دلوں سے ڈر نکلتا ہے
علی کی داستان سن کے
دلوں سے
یہ جو بچے ڈر رہے ہیں نا
وہوہو چمگادر آگئی
کاکروچ آگیا
یہ خوف نکل جائے گا
اگر حضرت قاسم بن حسن کی بات سنے گی
درجنوں لوگ آپ نے قتل کیے
ایک دفعہ آئے
کہ چاچا
یزید کا لشکر تو بڑا ایک بزدل ہے
اگر چند کترے پانی میرے حلق سے گزرے
تو میں سارے کاٹ کے لے آنگا آپ کے پاس
چند کترے
لیکن تھوڑی دیر گزری
عمر بن سعید کہنے لگا
اکیلے اکیلے جاؤگے تو علی کا پوتا ہے
یہ سب کو مار دے گا
کٹھے جاؤ چاروں جانب سے تیر برسے
ایک تیر لگا آکے
گردن کے پیچھے
بس جناب سیدنا
قاسم بن حسن گھوڑے سے
نیچے گیرے
تو جناب زینب حوصلہ کر کے
آنسو سمیٹھ کے کہنے لگی
میں دیکھ رہی ہوں پردے کی پیچھے سے
حسین میرے بھائی کا بیٹا گر گیا ہے
جا اسے اٹھا کے لا
حضرت امام حسین
ان کو اٹھا کے لائے
تو امام حسین نے سینے سے لگایا ہوا تھا
تو ان کے پیر ان کا قد لگتا تھا
امام حسین سے زیادہ
اٹھا کے لائے لٹا دیا گیا
امام حسین کے اپنے بڑے بیٹے میدان میں
نکلنے کو علی اکبر نام ہے
جب جن لوگوں نے حضور کو نہیں دیکھا تھا
وہ جب
کہتے نا ہم نے نبی پاک کا دیدار نہیں کیا
تو بتاؤ کس طرح کے تھے
تو بتایا جاتا تھا کہ جناب علی اکبر
کا دیدار کرو
ہم شبیح مصطفیٰ
اور جب وہ گلنیوں میں نکلتے تھے
تو عورتیں چھتوں پہ چڑھ جاتی تھے
جناب علی اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
تلوار لے کے میدان میں نکلے
جوان بیٹے دینے بڑے مشکل
او یارو رٹا کیا ہے یہ تو بتاؤ
کہ ظالم آدمی حکمران ہے
یار یہ رٹا ہے
ایک ظالم کا رستہ روکنا ہے
اس رٹے کے لیے
ہم شبیح مصطفیٰ
جناب سیدنا
امام علی اکبر میدان میں نکلے
بڑے لوگ مارے
بڑے پھر ایک تیر ان کے بھی
گلے میں لگا اور جب وہ گرے نہ
زمین پہ
تو حضرت امام حسین دوڑ کے آئے
دوڑ کے
اور جب تشریف لائے تو ان کے گلے سے
تیر کھینچا
تو ایک جملہ لکھا ہے صاحب تبری نے
اس نے حد کر دی
کہنے لگے تیر کھینچا تو امام حسین کی آنکھوں میں
آنسو آئے کہنے لگے
کاش جناب ابراہیم آج میرے سامنے ہوتے
تو میں انہیں کہتا
کہ آپ نے تو بیٹا زیبا کرتے وقت
آنکھوں پہ پٹی باندھی تھی
دیکھو میں کھلی آنکھوں سے بچے زیبا کر رہا
کھلی آنکھوں
کاش جناب ابراہیم خلیل ہوتے تو انہیں کہتا
جناب
علی اکبر بھی شہید ہوئے
حضرت علی اصغر کو تو اچانک اٹھایا تھا
امام حسین باہر نکلے
گردن پہ تیر لگا تو چھے مہینے کا بچا
وہ بھی شہید ہوا
خون اچھالا آسمان کی طرف تو
کہا مولا دیکھ لے
میں نے چھے مہینے والا بھی نہیں بچایا
وہ بھی دے دیا ہے
پھر حضرت عباس کو
بیٹیوں نے کہا کہ اب نہ
کچھ کہتے ہیں پہلے شہید ہوئے
کچھ نے لکھا ہے بعد میں
کہ اب ہم سے پانی کے بغیر نہیں رہا جاتا
تو جناب عباس پانی کا مشکیزہ
لے کے نکلے باہر
نکلے ایک ہاتھ
کٹا دوسرے پہ
مشکیزہ وہ بھی کٹا
دیکھ لو میں پس منظر پہ ہوں ابھی تک
میں بتا رہا ہوں کہ جہاد
کس کے خلاف تھا ظالمہ
مکمران کے خلاف
ظالمہ کافر کے خلاف نہیں
مشرق کے خلاف نہیں حضرت امام
حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
ہر جگہ ایک ہی بات کی کہ
یزید شرابی ہے
تو بچے کٹوا دوں گا شرابی
کو
کو ووٹ
یہ ایک نہیں ہر کتاب میں یہی لکھا ہے
ہر کتاب میں اور ہر مشرق کی کتاب
یزید چونکہ مجرے دیکھتا ہے
رنڈیوں کا ناچ دیکھتا ہے
بچے کٹوا دوں گا اس کے ہاتھ میں ہاتھ
امام حسین نے فرمایا
چونکہ اللہ کی حدوں کو توڑتا ہے
حقوق اللہ پامال کرتا ہے حدود
اللہ بچے کٹوا دوں گا
لیکن اس کے ہاتھ میں ہاتھ
سارا دن خود مجرہ دیکھنا اور دس محرم
کو دو دیکھیں بکا کے حسینی بن جانا
سارا سال خود
گند مند کرنا
شرابیوں کے ساتھ رہنا اور دس
محرم کو دو آنسو بھا کے یاد رکھنا
میں ہمیشہ
کہتا ہوں پھر کہہ رہا ہوں
اس کے موبائل میں گندے گانے ہیں گند دیکھتا ہے
شرابی کبابی کا سپورٹر ہے
ووٹر ہے
یا مجرے دیکھتا ہے آتا جاتا ہے
وہ یاد رکھے قیامت میں امام حسین
کا ہاتھ ہوگا اس کا گربان ہوگا
ہم سے نہ رقم ہوں گے
حسین کے صیرت نکار
حضرت عباس
بازو کٹا پھر پانی تو بھر لیا تھا
لا نہ سکے پھر گردن کٹی
تو شہید ہوئے
بچوں کی بھی شہادت ہوئی پھر جب ان کا
لاشہ اٹھایا تو امام حسین کہنے لگے
مولا اب نہ حسین کی کمر
کمزور ہو گئی ہے
اب کمزور ہو گئی
ایک میت ہو جائے تو چار پانچ دن
تو پوری آنکھیں نہیں کھلتی
کیسا جرری خاندان ہے
تھوڑی دیر گزری تو امام علی مقام
نے پٹھکا باندھا سر پہ دستار
باندھی مولا علی کی
تلوار پکڑی نبی پاک کا
امامہ باندھا اور گھوڑے
پہ سوار ہوئے تو کہنے لگے زینب
گھر تیرے حوالے اور میں اللہ کے حوالے
گھر تیرے حوالے اور میں
اور پھر امام حسین
نکلے امام علی مقام
نکلے راوی کہتے ہیں
کہ یہ جلوہ پہلے بھی بڑے سونے تھے
پر آج جو رنگ دیکھا وہ کبھی نہیں دیکھا
کیا انداز تھا
جدر جاتے نعرہ لگاتے تو حد ہو جاتے
اتنے لوگ امام حسین
نے کاتے اتنے کاتے
پھر واپس پلٹ کے آئے
اور کہنے لگے زینب
ذرا پردے کے پیشے سے دیکھ تو سی میری بہن
ان بزدلوں کو جرت
ہی نہیں ہو رہی حسین کے مقابلے میں آنے
ایک دوسرے کو جھکا دیتے
تو جا تو جا پھر
اکٹھے وار ہوئے
یہ کون ہے کٹا ہوا
لباس ہے پھٹا ہوا
یہ بل یقین حسین ہے
نبی کا نور
این ہے پھر چاروں جانب
سے تیر برسے تو امام
علی مقام چونکہ نماز
کا وقت ہو گیا تھا اترے
گھوڑے سے خون بے رہا
تھا کرم ترین ریج سے
تیمم کیا سر سجدے
میں رکھا اور جب
شیمہ راب کی گردن کاٹنے لگا
تو کہنے لگے ٹھہر جا ذرا رب سے ایک بات
کر لینے دے اور پھر بولے
امام حسین کہنے لگے مالک تو
اب بتا کہ حسین سے راضی ہے کہ نراض
ہے تو بتا
تو پھر ایک آواز آئی
یا ایتوہ نفس
مطمئنہ ارجعی
الہ رب کی راضیت مردی
فرمایا نفس
مطمئنہ واپس آجا تو اللہ سے
راضی ہے اللہ تجھ سے راضی
امام حسین وہاں شہید ہو گئے
اب یہ کافلہ امام حسین
کا سر کاٹ دیکھنا گوھر کرنا
سر کاٹ کے نیزے پہ رکھا ہے
جسم کربلا میں پڑا
عورتوں کو گھوڑوں پہ بٹھا کے
لے جایا گیا یزید کے دربار
میں یزید پہلے
عبیداللہ ابن زیاد نے بتمیزی کی پھر
یزید نے کی سعودی عرب
کا ایک مولوی بول رہا تھا سعودی عرب
کا ان سے بھی بڑا عشق ہے جس نے
تقریر سننی ہو میرے پاس ہے
ہمیں لوگ مشورے دیتے ہیں
کہ جو یزید کو اچھا کہے اور
حسین کو باغی کہے اس کو
ہم امام مان لیں اس بے شرم
بے حیاء کو جو نبی پاک
کے گھرانے کے بارے میں بکے اسے
امام سعودی عرب میں مسجد نبی
میں درس دینے والا جس نے تقریر سننی ہو
میرے پاس ہے وہ کہتا ہے
یزید تو بڑا اچھا آدمی تھا
اس نے تو بڑی خدمت کی تو میں نے اسے کہا
رشتہ داری کر لیا یزید کے ساتھ
قریب ہو جاؤ شرم نہیں آتی
آج بھی نبی پاک کا دل دکھاتے ہو
حیاء نہیں آتی خیال نہیں آتا
اور لوگ
گھر میں بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں
کہتے ہیں جو بیت اللہ میں ہو وہ بھی
برا ہو سکتا ہے بیت اللہ میں تو
تین سو ساٹھ بوت بھی تھے
وہ اچھے تھے
مدینے میں تو تین سو ساٹھ منافق بھی رہے
پوری سورہ منافقون نازل ہوئی
وہ اچھے تھے
عجیب تماشہ بنا دیا لوگوں نے مذہب کا
کہتا ہے یزید نے تو بڑی خیمت
عبید اللہ ابن زیاد نے قتل کیا
بے شرمو اگر عبید اللہ ابن زیاد
نے بھی قتل کیا تھا تو حکومت کس کی تھی
تو پھر یزید نے عبید
اللہ ابن زیاد کو سزا کیوں نہیں دی
بلکہ ایک جگہ
دو گورنریاں دی اس کو
یہ حال کیا
بلکہ سنو کہ یزید چھڑیاں مار رہا تھا
چھڑیاں
امام حسین کے لبوں پہ تو نومان بن بشیر
سے عبید بول پڑے کہنے لگے
یزید بدبخت آدھ پیچھے اٹھا
مجھے اللہ کی عزت کی قسم
میں نے سینکڑوں بار نبی پاک
کو ان ہونٹوں کو چونتے دیکھا ہے
حضرت جناب زینب
عورتوں کے مجمع میں پیچھے ہو کے بیٹھی ہیں
یزید کے پاس جب پہنچا
لشکر تو یزید کہنے لگا
دیکھو اللہ نے مجھے عزت دی اور میرے
مخالفوں کا کیا حال ہوا
تو بی بی زینب بول پڑی
اتنے صدمے سہے پر آواز
توانا ہے جاندار ہے
جاندار ہمارا کسی بندے سے
جائداد کا رٹا نہیں ہم تو چاہتے ہیں
امت کٹھی ہو جائے لیکن جو بندہ
نبی پاک کی ماں کو دوزغی کہے
حضور کے باپ کو جہنمی
کہے یزید کو امیر المومنین
کہے اس کے ساتھ اتفاقی
رائے کر لیا جائے یہ مذہب
ہماری سمجھ میں نہیں آتا
بلکل نہیں آتا قطر نہیں ہماری
سمجھ میں آتا کیسے اتحاد کر لیا جائے
یا تو میرے بھائی جو ہمارے
اپا کا مخالف اس سے اتحاد نہیں ہوتا
جو نبی پاک کے والد کو دوزغی کہے
اس سے اتحاد ہو جائے
کہتے ہیں جی وہ جی اتنی فرقہ واریت ہو گئی
ہم کس مسجد میں جاؤں ساٹھ پارٹیاں
پاکستان میں ریجسٹر ہیں
جو الیکشن لڑتی ہیں
کبھی کسی بندے کو ٹینشن نہیں ہوئی
کہ کس کے پاس جائیں کس کے پاس نہ جائیں
کبھی نہیں کہ بولا کہ اب وہ بھی کھڑا ہو گیا
وہ بھی کوئی ٹینشن نہیں
مذہب کی باری ٹینشن ہو جاتی ہے
اتنا بڑا مذہب ہوتا ہے بھائی غلط بندے بھی آئی جاتے ہیں
بیچ میں تھوڑا پہچان کے چلنا پڑتا ہے
صحیح کون ہے اور غلط
اور یہی تو ہمیں امام حسین نے بتا ہے
کہ مذہب کے اندر ہی تم نے شناست کرنی ہے
کہ بندہ ٹھیک کون ہے اور بندہ غلط ہے
یہی تو کربلا ہے
یہی تو امام حسین نے بتا ہے
کفر اسلام نہیں حق اور باطل
تو سمجھئے گا حضرت سیدہ زینب نے جب سنا
کہ یہ کہہ رہا ہے
کہ مجھے اللہ نے عزت دی
تو جناب زینب بولی
نومان بن بشیر کہتے ہیں بی بی بولی
اتنے صدمے ہیں
پر جناب زینب بولی
اللہ اکبر
اس انداز میں بولی
کہ پہلے قرآن مجید کی آیت پڑی
کہنے لگی
اور پھر کہنے لگی
یزید تو بکتا ہے
کہتا ہے کہ تو عزت والا ہو گیا
یہ تیری حکومت ہے
چار دن گزرنے دے
تجھ پہ کوئی لالت بھی نہیں برسائے گا
اور میرے بھائی کا قیامت تک
ممبروں میں اور خدبوں میں ذکر ہوا کرے گا
وقت گزرنے دے
جب جناب بی بی زینب بول رہی تھی
تو حضور کے کنابینہ سے ابھی پاس بیٹھے دے
جناب نومان
بی بشیر کا ہاتھ ہلایا
ہلا کے کہنے لگے
کیا علی آگئے
تو علی کی آواز لگتی ہے
جبریل امی بول رہے ہوں جیسے
حکمت کے گہر رول رہے ہوں جیسے
دربار دمشق میں بی بی زینب کا خطاب
ممبر پہ علی بول رہے ہوں جیسے
میرے بھائی
بس کربلا والا
کافلہ تو بدین نے پہنچ گیا
تین سال یزید نے حکومت کی
شرابیں عام ہو گئیں
مکہ پہ حملہ ہوا
خانہ کعبہ کا
غلاف جلا
مدینہ پہ اس نے حملہ کیا
تین دن مسجد نبوی میں
اس نے گھوڑے باندھے مسجد نبوی میں
سیابا کو نکال کے
اس نے امام مقرر کیا
لیکن پھر امت نے اسے قبول
نہ کیا پھر وہ رسوا
ہوا اور آج تک وہ رسوا
ہے لیکن امام
حسین کا نام کل بھی زندہ تھا اور آج
بھی درس یہ ہے
درس یہ ہے پیغام یہ ہے
پیغام یہ ہے
یاد رکھو
موت
تیزی سے آ رہی ہے
ہمارے ساتھ والے دائیں بائیں والے
سب چلے گئے ہیں
اسی طرح نمبر لگے گا
ایک دن اعلان ہوگا
ضمیر کے قیدی بلکہ زندگی نہ گزارو
بالکل نہ گزارو
یہ تھوڑی سی زندگی ہے دنیا سجند المومن
حق بات کرو
حق پہ ڈٹنا سیکھو
دین سمجھو خبردار
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے
دین میں ظالم جابر فاسق فاجر
کی کوئی گنجائش ہے
قطر نہیں ہے
اپنے آپ کو سمیٹو اپنے آپ کو سنبھالو
دین میں اپنا کردار ادا کرنے کی
کوشش کرو
دین طلب کرتا ہے ہم سے کہ ہم نے دین کو
کیا دیا ہے
امام حسین نے سارا گھرانا دین کے لیے دے دیا
ہمارا جو بچہ کسی کام کا نہیں رہتا
اسے مدرسے داخل کراتے ہیں
ہم نے دین اتنا کمزور کر دیا ہے
کہ عالم اگر شور نہ کریں
عالم اگر شور نہ کریں
زور نہ کریں
گھٹن والا محول ہو گیا ہے
مذہب کی پوزیشن کمزور کر دی
اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے
جی فرقے ہو گئے تو میرے بھائی یہ کوئی
اتنی خطرناک بات ہے
یہ کوئی اتنا مشکل معاملہ نہیں ہے
یہ تو امام حسین نے بتا دیا تھا
کہ یزید کے طور پر ایک غلط فرقہ کھڑا ہو گیا ہے
لہذا اس کا مقابلہ کرنا ہے
اس میں کوئی بری بات ہے لیکن ایک سبق ہے
بزرگوں کا کہ اگر سچی بات
بھی نہیں کرنی تو پھر اس ممبر
کا حق کدا نہیں ہوتا
جو سچ بولے وہ حسینی ہے
جو ظالم کے سامنے
کھڑا ہو جائے وہ
حسینی ہے جو مسلحت کوش ہو
جو کہے ٹائم نہیں گراؤنڈ ریالٹی نہیں
حالات نہیں طبیعت نہیں موقع نہیں
تو ابھی امام حسین کے
پیغام کو نہیں سمجھا

Đang tải...
Đang tải...
Đang tải...
Đang tải...