What do you want to listen to?
Song
Inqilab
Jokhay
0
Play
Lyrics
Uploaded by86_15635588878_1671185229650
درجہ حرارت بڑھے گا یہ سالوں کی چاہت لگی
کافی لاغت کھڑے اس جگہ پر کھڑی گونا تاکہ لڑا
خود ہی جا کر بنی کافی طاقت
ثقافت سے بار تو کیا تیری یارزو چلتا نہ نام
کیوں ہاتھوں کو بھانتو کر لے احسان ہے فار
تو پار کر ہار کو گل لے یا سال تو
خاص تراب تا کرا ختم
ماضی کے ساتھ ہی بڑا قدم
جانے کے بعد ہی دکھتا جنم
سکے جو پلٹے تو چلتا کلم
شایر میں ساتھ میں گلشن کا برو
یہ باتیں ہیں ظاہر تو بہتر یو کوٹ
گوا سارے جیتے لوگ پروسہ نہ بھولا تا پیچھے جو
سب اکلیہ پلٹ دیا سینگو
ترک کیا پرک لی تو گرک کیا نیچ لوگ
سرد پر سبک دیئے گرم کرے بیف تو
فرق کرے الگ کرے بلکتے یہ ٹین پروس
حصل پہ نہ فلیکس یہ فرض ہے
فخر ہے یہ پیر تک سر سے
سفر کرتے یہ مرکے بجھتے
زندہ صدقے سب کے
کلا کا تو قاتل ہے مکتب گردش میں
دنیا نکالے سب مطلب منظر کشی کرتا
زندگی مرکز ان سے رہوں گا
متاثر میں کب تک جواب نہ
حاصل ہے کافی سوال خوبیاں
چھپی تھی اندر ہزار جلے پنے
دیل راگ آگے بھی باقی
پیش و مار خواہشیں دل میں رکھتے
کرتے زیادہ اب شکوے سب یہ
رب کا سایہ یہ وقت جو آیا
حصل نمائع ہر لفظ حق پہ
بڑے جو سلسلے
سارے یہ مل پڑے
جانے کیوں دل پہ لیں
واقف ان ساروں کی رگ رگ سے
خواہشیں دل میں رکھتے
کرتے زیادہ اب شکوے سب یہ
رب کا سایہ یہ وقت جو آیا
حصل نمائع ہر لفظ حق پہ
بڑے جو سلسلے
سارے یہ مل پڑے
جانی کیوں دل پہ لیں واقع انسانوں کی رگ رد سے
لگا رہا چنگاری بھڑا کھٹی آگ میں
دنیا ہاری کلاکاری بھاری پڑی سال میں
سات سے ایک نہ پڑا پر لکھا تھا سات میں
سکول کلز آٹ پر یہ شروعات ہوئی کلاس میں
دیکھیں خواب جنہیں پورا کرنے کو پھر سوئے نہیں
دیتے دات منزل پاس رستوں میں کھوئے نہیں
بہتی میں دھوئے نہیں گیر اٹھے پر روئے نہیں
دم خود کیسے کوئی نہیں زخم کو ہم دھوئے نہیں
آغاز کیسے بھولو اختتام کو ناز کے ہم وہ فینز
ہاتھ باندھ ان کے لاب جو کیش کرے نہ ٹرنز
ہم پہچان دے سات کو رکے نہ گرے گھاٹ
جو موت ہی توڑے سات کو کھوڑ جو ہے ہزار
تو پیار دیتے لاکھوں سنے وہ اس خطاب کو جلے
جو ہم بے باک ہو گلے لگے ماباپ جو گلے کرے
آٹ شاٹ کو سلسلے یہ ناپ لو پھر بولے تم فارو
آہ دیکھ دیکھ اپنا سین علق پوچھے مجھ سے سکیم
طلب گانے یہ افیم فلک چھوٹے پر زمین
قدم چین کلم ٹوڑ بھرم لے لے چاہے سو جنم
جا کے کر دو لاکھ جتن مر کے بھی نہ ہو
ختم لے قسم یہ کرم جیتے جیے جیت ستم
میرے ان مخالفوں پر مختلف یہ سوچ جو ہم طالب رہتے غالبوں کے
راتوں کو مسنف سورج نکلے تو مسافروں میں قادر
تبھی قابلوں میں کاسر وہ جو قائر کھو دے
ساتر بن کے خود کی قبر صفر سے یہ شروع سفر
مگر کھڑے سوپے نیت کے نا پھوٹے
چھوڑے نہ یہ موقع نہ کندے چکے بوت سے دوکے
کھائے روز کے ٹوکتے کاؤ بے ٹوٹ کے لائے
روز کے روکنا چاہے روز یہ راز چھپائے خوف سے
زین بولے تو چھوڑ دے بیک دیتے جو کہ روک سکے تو روک لے
خواہشیں دل میں رکھتے کرتے زیادہ اب شکوے سب یہ
رب کا سایہ یہ وقت جو آیا حصل نمائی ہر لفظ حق پہ
بڑے جو سلسلے سارے یہ مل پڑے
جانے کیوں دل پلے واقف انساروں کی رگ رگ سے
خواہشیں دل میں رکھتے کرتے زیادہ اب شکوے سب یہ
رب کا سایہ یہ وقت جو آیا حصل نمائی ہر لفظ حق پہ
بڑے جو سلسلے سارے یہ مل پڑے
جانے کیوں دل پلے واقف انساروں کی رگ رگ سے
وہ آج پھر لڑو کس کی میں خاطر
نہ گر اگر اٹھنے کے قابل
جاہل لوگ سمجھے میں شاتر
ظاہر جو دماغ رکھوں حاضر
فاظل علم اتا مجھے حاصل
شائری جیسے ہوتی مجھے نازل
تجھے مسئلے تو سیدھا مجھ سے آمل
رب ساتھ ہو تو پھر کوئی بھی مقابل
تمہیں لگے یہ وقت بڑا قیمتی
عیش و عیشی میں دنیا کے فائدے
سب یہ احصول پرانے قائدہ
سکھائے نہ جینے کے قائدے
شور میں کچھ نہ سنائی دے
موں میں نہیں بچتے ہیں ذائقے
موت کا دن تو مقرر پھر کیوں
زندگی بھر کے مہائی دے
قدم چلا بدن میرا ٹوٹتا رہا
رسی تھامی پر ہاتھ میرا چھوٹتا رہا
خواب جیسے کوئی ببل جا کے پھوٹتا رہا
لفظ قیمتی زمانہ سارا لوٹتا رہا
میں خود سے پوچھتا رہا پہلی بوچھتا رہا
جتے جی جینے کی وجہ ڈھونڈتا رہا
یہ کی دنوں کا جھن مجھے گھوٹتا رہا
مجھے ہیٹ دیتے میں ان پہ ملتا رہا
بڑا دل ہوتا بھی بڑی باتیں کرنا
اگر لفظوں کے کرے تو کیوں وعدے کرنا
جب ارادے کرنا سیدھے سادھے کرنا
لوڑے بوریوں میں بند ہمیں آتے کرنا
کھوئے جب یار پرانے
دنیا راست نہیں آتی
ایک کال پہ ہیں ڈروجر پر
قبر تک آواز نہیں جاتی
خواہشیں دل میں رکھتے کرتے زیادہ
اب شکوے سب یہ رب کا سایہ
یہ بلد جو آیا حصل نمائی
ہر لفظ حق پہ
بڑے جو سلسلے
سارے یہ مل پڑے
جانے کیوں دل پہ لیں
واقف ان ساروں کی رگ رگ سے
خواہشیں دل میں رکھتے کرتے زیادہ
اب شکوے سب یہ رب کا سایہ
یہ بلد جو آیا حصل نمائی
ہر لفظ حق پہ
بڑے جو سلسلے
سارے یہ مل پڑے
جانے کیوں دل پہ لیں
واقف ان ساروں کی رگ رگ سے
ترستے لوگ ملنا مجھ سے دھن میں
گم نکالے کیسے دل میں گھس کے
سنتے سنتے ملے مجھے چلتے رستے
ان بھی دھن میں آجو ان پہ مل کے ہستے
دن بہ دن بدل چلے جو فیم کی چس میں
نہیں تھا بس میں کھائی ہوئی خود سے کسمے
لکھتا سچ میں دوڑے نص میں دیکھے صدمے
دکتی رگ یہ جانے رب یہ لکھ رہا کب سے
وزن میری زبان میں کلم اٹھے یہ شان سے
فخر ہوتا ہے کام دے گھیرے نکلیں گے کان سے
چھوئیں گے آسمان یہ کلا کو ہم پہچانتے
کھڑے گھرے ہم رونگتے ریپ کو اصل نام دے
یاروں کے لیے جان دے پھولوں میں بھی ہوں کانٹے
مسافرے ہم مانتے مریں گے سینہ تان کے
دیوانے جیسے شام کے کامتے لوگ یہ سامنے ساتھ دے
مہربان سے
سڑک کو پھڑک دے وہ ڈرے میری جلک سے
سڑک با فلک تک کا سفر پھسے حلق میں
پلک سے چھلکتے آنسوں جب قسمت پلک دیں
دنیا سے الگ بڑا فرق پاتے کڑک صرف
حائش پوری مجھے پسند نہیں مشہوری اگر قدر
ہو ادھوری میرا صبر میری خوبی رہوں نظر میں
لوگوں کی چلے خبر کہوں جو بھی میری زندگی
ایک کو بھی اپنی قبر خودی کھو دی لیکن نظم وہ بھی چھوٹی
ان کی حسد ان کی خوبی لگے چادر یہ بھی چھوڑی
ناشوٹو کی پھر دی چولی سادشے جیسے یہودی
کمر پہ کھو پہ چھوڑی ہوتا ہزم نے میں موڑی
لفظوں سے چڑھا دو سولی سر نہیں چھوکتے
بول کیسے ہم رکتے لوگ آج بھی ٹھوکتے
کبھی ہم بھی گھٹتے لیکن دل کے دکڑے گانے
دل کے دکڑے سالے جلتے مجھ سے کیوں کہ نکلا
ہوت سے خواہشیں دل میں رکھتے
کرتے زیادہ اب شکوے سب یہ
رب کا سایہ یہ بند جو آیا
حسن نمائی ہر لفظ ہے حق پہ
بڑے جو سلسلے
سارے یہ مل پڑے
جانے کیوں دل پہ لیں
واقع انساروں کی رگ رگ سے
خواہشیں دل میں رکھتے
کرتے زیادہ اب شکوے سب یہ
رب کا سایہ یہ بند جو آیا
حسن نمائی ہر لفظ ہے حق پہ
بڑے جو سلسلے
سارے یہ مل پڑے
جانے کیوں دل پہ لیں
واقع انساروں کی رگ رگ سے
مل پڑے
Show more
Artist
Jokhay
Uploaded byThe Orchard
Choose a song to play