What do you want to listen to?
Song
Waqya Bhukhi Maa Ka Dard
Shakil Ashfaq
0
Play
Lyrics
Uploaded by86_15635588878_1671185229650
سامائین حضرات
اسلام علیکم
فاطمہ میزو پینٹی جے جنیجہ جی پیش کرنے جا رہے ہیں
ایک بہت ہی درد بھرا اور نصیحت بھرا واقعہ
انبان ہے بھوکی ماں دیکھئے حضرات ایک بہو اپنی ساس پر کس طرح سے
ظلم اڈھاتی ہے اور بیٹا اپنی ماں سے کتنی محبت کرتا ہے میں اس
واقعے میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں اس کے فنکار ہے شکیل اشفاق
قبوال اور اینا بدایوں اس واقعے کو لکھا ہے ہندوستان کے مشہور
شاعر جناب عمران سرفراز نے میزو سے سجایا ہے کشور ملہترہ جی
نے اس کی ریکاوڈنگ کی ہے مسٹر چندر گاندی جی نے ایس کلیانی اسٹوڈیو
دریا گن نئی دلی اس کے سیوجک ہیں دیوندر خدان ادی تو لیجی حضرات یہ
بھوکی ماں کا واقعہ میں آپ کو یہاں سے سنانے جا رہا ہوں اگر یہ
واقعہ آپ کو اچھا لگے تو مجھے کمنٹس باکس میں ضرور لکھ کر بتائیں یہ
واقعہ آپ کو کیسا لگا میں آپ کے لیے اسی طرح کے واقعات سناتا رہوں
گا تو لیجی حضرات میں یہ واقعہ آپ کو یہاں سے سنانے جا رہا ہوں ملائے
دیکھئے
سنو گے تم جو یہ قیسہ تو پلکیں بھیگ جائیں گی
کہانی بھوکی ماں کی ہے بسندی موران آئے گی
سنو گے تم جو یہ قیسہ تو پلکیں بھیگ جائیں گی
کہانی بھوکی ماں کی ہے بسندی موران آئے گی
بنا رسمی تھی ایک بڑھیا عمر ستر برس کی تھی
نہ تھا خوابند بڑھیا کا کئی برسوں سے بیوا تھی
بہون بیٹے کے سنگ رہ کر گزارا اپنا کرتی تھی
ظلم اس پہ بہون اس کی شبوں دن رات کرتی تھی
خبر بیٹے کو نہ تھی یہ کہ بیوی ظلم کرتی ہے
کھتاتی ماں کو ہے بیوی نہیں کھانے کو دیتی ہے
وہ جب تک گھر پہ رہتا تھا صحیح سے پیش آتی تھی
جو شوہر گھر سے جاتا تو ستم ہو ماں پہڈھاتی تھی
کراتی گھر کا سارا کام بوڑھی ساس سے اپنی
اگر کچھ رہ بھی جاتا تو سناتی ساس کو اپنی
اگر رہنا ہے اس گھر میں تو کرنا کام بھی ہوگا
مفت کا ایک لکمہ بھی میسر ہی نہیں ہوگا
بڑی محنت مشکت سے میرا شوہر کماتا ہے
تبھی یہ رزق اے بڑھیا ہمارے گھر میں آتا ہے
فری کا ایک دانا بھی تجھے بڑھیا نہیں دوں گی
کرے گی کام جب سارا تبھی کھانے کو میں دوں گی
غریبہ مفلسہ کمزور بڑھیا غم کی وہ ماری
نہ ہوتا کام اس سے پھر بھی کرتی کام بیچاری
بہو بستر پہ بیٹھی بیٹھی دن بھرے کھلتی پبزی
مزے لیتی موائل کے تھی دن بھر ایش وہ کرتی
ضعیفہ ہاں پتی جاتی مگر کرتی بھی کیا کرتی
نہیں ہوتا تھا اب اس سے مگر سب کام وہ کرتی
صبح ایک روز شوہر جب گیا عورت کا گھر سے تو
گئی نزدیک بڑھیا کے کہا چل جا کے برطن دھو
کہا بڑھیا نے بیٹا آج طبیت میری گڑھ بڑھ ہے
نہیں ہے جان بلکل جسم میں اٹھنا بھی مشکل ہے
ذرا تو رہم کھاؤ اس بڑھا پیپر میرے بیٹی
عمر ابو یہ نہیں میری یہ سارے کام کرنے کی
تیرے شوہر کی روٹی آج سے ہرگز نہ کھاؤں گی
کمائی تیرے شوہر کی نہ اپنے پر لگاؤں گی
تیرے شوہر کی روٹی آج سے ہرگز نہ کھاؤں گی
کمائی تیرے شوہر کی نہ اپنے پر لگاؤں گی
پڑا رہنے دو ایک کونے میں اپنے لال کے گھر میں
کروں گی اس سے نہ تیری شکایت چپ رہوں گی میں
بہو بولی نہ کر ناٹک جا گھر کا کام ہو کر سارا
چھڑیے دیکھ لے ورنہ سجا دوں گی بدن سارا
چھڑی دیکھی ضعیفانے تو اٹھ کر کام کرتی ہے
نہیں تیتاو بلکل بھی وہ چکر کھا کے گرتی ہے
ستم گر وہ بہو آ کر اسے ٹھوکر لگاتی ہے
نہیں اٹھتی ہے بڑھیا تو چھڑی اس پہ چلاتی ہے
چھڑی کی چوٹ سے بھی ہوش جب اس کو نہیں آیا
بہو کو تب وہ یقین ہوتا ہے کہ چکر اسے آیا
وہ تب یہ سوچتی ہے اب نہیں یہ کام کی کچھ بھی
رہے گی جو یہاں گھر میں بنے گی بوجھ میرا ہی
نکالوں اب اسے گھر سے تب ہی میں چین پاؤں گی
جو شوہر آ کے پوچھے گا بہانا کچھ بنا دوں گی
ضعیفہ ہوش میں آئی تو بولی یہ بہو اس سے
رکھوں گی تجھ کو اب میں نہ نکل جا
تو میرے گھر سے
ضعیفہ ہوش میں آئی تو بولی یہ بہو اس سے
رکھوں گی تجھ کو اب میں نہ نکل جا
تو میرے گھر سے
نہیں تو تیرے بیٹے کو زہر دے کر میں ماروں گی
اسے رکھنا ہے زندہ تو یہ کہہ دے گھر سے جاؤں گی
ضعیفہ کہتی ہے اس سے بہو ہری گزیے نہ کرنا
چلی جاتی ہوں گھر سے زہر بیٹے کو نہ دے دینا
میرا کیا کٹے گئی ہے چند ساسے ہی بچی ہیں اب
میرے بیٹے کی تو پوری پڑی ہے زندگی ہے سبوں
میں اپنے لال کی خاطر یہ قربانی بھی دے دوں گی
چلی جاؤں گی اس گھر سے کبھی واپس نہ آوں گی
مگر ہے التجا میری میرے بیٹے کو خوش رکھنا
دیا ہے ساتھ جو میرے کبھی نہ اس کے سنگ کرنا
میں اب جاتی ہوں دل پر پوجھ لے کر تیری باتوں کا
خدا تجھ کو ہدایت دے تجھے احساس ہو اس کا
کئی دن کی ضعیفہ بھوکی پیاسی گھر سے جاتی ہے
لبوں سے کچھ نہیں کہتی مگر دل دل میں روتی ہے
نہیں ہے تاؤ چلنے کی مگر وہ چلتی جاتی ہے
نہ جانے کون سی منزل کی جانب بڑھتی جاتی ہے
نہیں ہے تاؤ چلنے کی مگر وہ چلتی جاتی ہے
نہ جانے کون سی منزل کی جانب بڑھتی جاتی ہے
یہ دی دی ماں نے قربانی نہ آئے آنچ بیٹے پر
ستم اس پر کوئی ٹوٹے نہ آئے تاؤ بیٹے پر
جب آیا کام اسے بیٹا نہ دیکھا اس نے ماں کو تو
نہیں دکھتی کہیں امی بتاؤ ہے کہاں پر وہ
کہا شوہر سے بی بی نے گئی ماں مو کے گھر ہیں وہ
وہ آ جائے گی جلدی ہی پریشا آپ اب مت ہو
چلو مو ہاتھ دھولو آپ کو میں چائے لاتی ہوں
پھر اس کے بعد میں پکوان اچھے سے پکاتی ہوں
بھیلا کر چائے شوہر کو کڑھائی رکھ دی چولے پے
دہ گوٹ تھا جو چولا تو بھرا پھر گھی کڑھائی میں
لگا جب کھولنے گی تو اٹھی چھلنا اٹھانے کو
جو اس کا پیر فسلا تو کڑھائی پر گری جا وہ
سنی جو چیخ بی بی کی تو آیا بھاگ کے شوہر
اٹھایا اس نے بی بی کو دواغ کھانے گیا لے کر
شہر کے نامی ڈاکٹر سے علاج اس نے تھا کروایا
مگر پوری طرح چہرہ جلانا ٹھیک کر پایا
کہا ڈاکٹر نے اب اس سے زیادہ ٹھیک نہ ہوگی
کہا شہر نے اب اس سے زیادہ ٹھیک نہ ہوگی
جلی ہے، اس طرح چمڑی صحیب بالکل نہیں ہو گی
جلی ہے، اس طرح چمڑی صحیب بالکل نہیں ہوگی
جلی ہے، اس طرح چمڑی صحیب بالکل نہیں ہوگی
جب آیا ہوش بیوی کو ہوا احساس تب اس کو
ستایا تاس کو میں نے صبر اس کا پڑا مجھ کو
بڑی جلدی ہی اللہ نے سزا مجھ کو ہے دے ڈالی
جلا چہرا لیے گوموں عمر بھر شکلیے کالی
کہا شوہر سے میں نے ساس کے سنگ بد گمانی کی
بہت ان کو ستایا ہے سزا جس کی مجھے دے دی
نہیں ماں مو کے گھر گئی وہ انہیں گھر سے نکالا تھا
انہیں کھانا نہ دیتی تھی ظلم ہر ان پہ ڈھایا تھا
کہیں سے ڈھونڈ کر لاؤ میں ان سے مانگ لو معافی
تب ہی میں چین پاؤں بھی اگر وہ معاف کر دے گی
کہا شوہر نے ظالم یہ غزب تو نے وہ کر ڈالا
نہیں جس کی کوئی معافی گنا ایسا ہے کر ڈالا
میری جنت کو تو نے کس طرح سے رونڈ ڈالا ہے
برازہ حشر بھی مو تیرا کالا ہونے والا ہے
میری جنت کو تو نے کس طرح سے رونڈ ڈالا ہے
برازہ حشر بھی مو تیرا کالا ہونے والا ہے
میری بھی آخرت تیری وجہ سے اب بگڑ گئی ہے
تجھے تو تیرے کرموں کی سزا دنیا میں مل گئی ہے
گیا بیٹا وہ ماں کو خوج نے جنگل میں بستی میں
پڑوسی بھی گئے تھے خوج نے بڑیا کو بستی میں
پریشان حال بیٹا دے رہا تھا ماں کو آوازیں
کہا ہو تمہوں میری امنی تمہیں آیا ہوں میں لینے
بہو سے تو خفا ہو تم کیا مجھ سے بھی خفا ہو تمہوں
میں تھا انجان اس سب سے سنو آواز امی تمہوں
میری ماں اے میری جنت بتاؤ کس جگہ ہو تمہوں
تڑپتا ہوں بنا تیرے میری امی کہاں ہو تمہوں
تب ہی آواز بیٹے کی جو ماں کے کانوں میں پہنچی
وہیں ایک پاس کھند ہر سے گھسٹ کر مان کر پہنچی
جو دیکھا ماں کو بیٹے نے گلے اکونے لگایا پھر
نہیں تھی تاؤ بڑیا میں گری چکر وہیں کھا کر
اٹھایا ہاتھ میں بیٹے نے لے آیا اسے گھر میں
حکیموں کو بلا لایا تھا ماں کا تذکرہ کرنے
اٹھایا ہاتھ میں بیٹے نے لے آیا اسے گھر میں
حکیموں کو بلا لایا تھا ماں کا تذکرہ کرنے
کہا ڈاکٹر نے دیکھا تو نہیں اب کچھ بھی باقی ہے
کئی دن سے تمہاری ماں یہ بھوکی اور پیاسی ہے
تب ہی پھر ماں نے کھولی آنکھ دیکھا ایک نظر اس کو
لیچ کی زور کی ایک البدا کہے گئی وہ دنیا کو
لبوں پر دم تھا اٹھا آس تھی بیٹے سے ملنے کی
جو مل لی اپنے بیٹے سے تو دنیا ہی جدا کر لی
بہو روتی دہارے مارتی میت پہ بڑھیا کی
یہ کہتی معاف کر دیتی خطائیں مجھ سے جو ہوئی تھی
میں اب ہر جز زمانے میں کبھی نہ چین پاؤں گی
یہی احساس لے دنیا سے ایک دن میں بھی جاؤں گی
اسے سمجھایا شوہر نے پشمہ ہو جو غلطی پر
خدا بھی معاف کر دیتا ہے توبہ ایسے کرنے پر
ہمیں معلوم ہے اللہ صبر کا عجر دیتا ہے
لبوں پر آئے نہ لیکن خدا انصاف کرتا ہے
سبر مظلوم کا خالی کبھی جاتے نہیں دیکھا
یہی پر سب کو ملتا ہے وہاں ہم نے نہیں دیکھا
سبر مظلوم کا خالی کبھی جاتے نہیں دیکھا
یہی پر سب کو ملتا ہے وہاں ہم نے نہیں دیکھا
ختم امران تیرا واقعہ یہ ہو گیا ہے
ختم امران تیرا واقعہ یہ ہو گیا ہے
ختم امران تیرا واقعہ یہ ہو گیا ہے
سبق قیسا تمھارا یہ سبی کو دے گیا ہے
Show more
Artist
Shakil Ashfaq
Uploaded byWARNER RECORDED MUSIC
Choose a song to play